Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

دنیا

ایتھوپیا جہاز بھر کر خواتین کو سعودی عرب کیوں بھجوا رہا ہے؟

Published

on

مارچ کے پہلے ہفتے میں، عدیس عبابا کے میکانیشا ضلع میں، اپنے گھر کے صحن میں اپنے نوعمر بچے کے ساتھ کھیلتی حروت کو ایک فون کال موصول ہوئی، فون نمبر اجنبی تھا، اس سے پوچھا گیا کہ کیا وہ مشرق وسطیٰ میں گھریلو خادمہ کی ملازمت کرنا چاہتی ہے؟

27 سالہ حروت کے لیے یہ فون کال ایک دھچکے کی طرح تھی، حروت نے چھ سال کویت میں گھریلو خادمہ کے طور پر گزارے تھے اور 2020 میں وطن واپس آئی تھی۔

’ میں خوفزدہ تھی کیونکہ میں نے سوچا فون کرنے والے انسانی سمگلر بھی ہو سکتے ہیں اور میں حیران تھی کہ انہیں میرا نام کس نے بتایا اور نمبر کہاں سے ملا‘  حروت نے یہ بات الجزیرہ کو بتائی۔

فون کرنے والوں نے بتایا کہ وہ سرکاری ملازم ہیں اور انہوں نے اس (حروت) کا ڈیٹا  سرکاری ڈیٹا بیس سے لیا ہے جس میں مشرق وسطیٰ میں کام کر کے وطن واپس آنے والوں کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔

زندگی میں کامیابی  دلانے کا تیز تر ذریعہ

اسی کی دہائی سے ہی ایتھوپیا کے شہری گھریلو ملازمتوں کے لیے سعودی عرب، لبنان اور کویت کا رخ کرتے ہیں۔  یہ ملازمتیں زیادہ تر ریکروٹمنٹ ایجنسیز یا انسانی سمگلروں کی طرف سے  دلوائی جاتی ہیں ۔

اس بار ایتھوپیا کی حکومت اس سارے عمل کی نگرانی کر رہی ہے، بھرتی سے ایڈورٹائزمنٹ تک سب کچھ سرکاری سطح پر ہورہا ہے۔

ایتھوپیا کی حکومت 18 سے 40 سال تک کی عمر کی پانچ لاکھ خواتین کو سعودی عرب میں گھریلو خادماؤں کے طور پر بھرتی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

مارچ کے آغاز پر ہی فیس بک اورایتھوپیا کے شہروں اور قصبوں میں لگے  بل بورڈز پراشتہارات نمودار ہونا شروع ہوئے  تھے جس میں خواتین کو سعودی عرب میں ملازمت کے لیے سرکاری دفاتر سے رجوع کرنے کا کہا گیا تھا۔

حروت اور اس جیسی دیگر خواتین جو مشرق وسطیٰ میں ملازمت کا تجربہ رکھتی ہیں اور وہاں کی زبان اور کلچر سے واقف ہیں ،  کے ساتھ رابطے کئے گئے اور  دور دراز کے علاقوں میں ڈپٹی میئرز کو ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ بھرتی کے اس عمل کی نگرانی کریں۔

ایتھوپیا کے شمالی امہارا ریجن  میں بھرتی ہونے والی ایک خاتون، جو اب زیر تربیت ہے، نے  بتایا کہ ان سے کہا گیا ہے کہ  ایسے مواقع زندگی میں بار بار نہیں آتے اور یہ موقع زندگی میں کامیابی  دلانے کا تیز تر ذریعہ ہے۔

دو ہزار بیس کے اوائل میں سعودی عرب نے ایتھوپیا سے آنے والے تارکین وطن پر پابندی عائد کی تھی جس کا مقصد کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنا تھا۔ یہ پابندی اس سال فروری میں ہٹائی گئی ہے اور ایتھوپیا کی حکومت اب بھرتی مہم چلا رہی ہے ۔

اس بھرتی پروگرام کے تحت خواتین کو سرکاری جہازوں میں سعودی عرب پہنچایا جائے گا اور سعودی عرب میں غیرملکی ملازموں کو ماہانہ ایک ہزار ریال تنخواہ دی جاتی ہے جو ایتھوپیا میں بہت سی ملازمتوں سے ہونے والی آمدن سے زیادہ ہے۔

ایتھوپیا کے وفاقی حکام اس پروگرام کو  ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب ملازمت کے لیے لوگ غیر قانونی طریقوں سے یمن اور  جبوتی کے راستے جاتے اور زندگی خطرے میں ڈالتے تھے۔

انسانی حقوق کارکنوں کے خواتین بھرتی پرتحفظات

اس بھرتی پروگرام پر انسانی حقوق کے ماہرین اور کارکن اعتراض اٹھا رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کا انسانی حقوق کا ریکارڈ اچھا نہیں ۔ 2020 میں یورپی یونین پارلیمنٹ   نے سعودی عرب میں ایتھوپیا کے شہریوں کی دوران حراست ہلاکت پر مذمتی قرارداد منظور کی تھی۔سعودی عرب میں لاکھوں غیرملکی ملازمین پر لیبر قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا  اور وہ کفالۃ کے تحت کام کرتے ہیں جسے دور جدید  کی غلامی کہا جاتا ہے۔

کفالۃ پروگرام کے تحت کام کرنے والے اگر اپنے آجر کا گھر چھوڑ دیں تو ان کو غیر قانونی تصور کیا جاتا ہے خواہ وہ آجر کے ظلم  اور بدسلوکی کی وجہ سے ہی گھر چھوڑنے پر مجبور کیوں نہ ہوئے ہوں۔

سرکاری بھرتی پروگرام کے تحت خواتین کو ضمانت دی جا رہی ہے کہ اب انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا کیونکہ حکومت نے بھرتی کا ذمہ خود اٹھایا ہے ۔

ایتھوپیا  سے گھریلو ملازمہ بھرتی ہونے والی خواتین کے پہلے گروپ کو چار اپریل کو ایک جہاز کے ذریعے سعودی عرب بھجوایا گیا۔

ایتھوپیا کے حکام کا موقف ہے کہ بیرون  ملک سے زرمبادلہ آنے سے ملک کی معاشی حالت بہتر ہوگی لیکن معاشی ماہرین اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سے بہت کم پیسہ قانونی ذرائع سے ملک میں آتا ہے جبکہ زیادہ بڑا حصہ بلیک مارکیٹ سے ملک میں پہنچتا ہے۔

عدیس عبابا کی حروت سرکاری پیشکش کے باوجود سعودی عرب جانے کو تیار نہیں، اس کا کہنا ہے کہ وہ کویت میں  ایک جہنم سے گزری ہے اور اب وہ واپس اس جہنم میں جانے کو  تیار نہیں ۔ حروت کہتی ہے کہ وہ سعودی عرب جانے والی خواتین کے لیے دکھی ہے کیونکہ وہ نہیں جانتیں کہ وہ کہاں جا رہی ہیں اور ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین