ہمارے بارے میں

ہماری پالیسی

میڈیا کے متعلق پوری دنیا میں ایک تاثر بن چکا ہے کہ وہ سیاست دانوں، سیاسی جماعتوں ، تاجروں اور میڈیا مالکان کے مفادت کا نگہبان ہے،میڈیا کی غیر جانبداری پر سوال اٹھ چکے ہیں۔ ادارتی پالیسی پر اثر انداز ہونے کے لیے  کبھی اشتہارات کو ہتھیار بنایا جاتا ہے تو کبھی لائسنس میڈیا کا بازو مروڑنے کے لیے استعمال ہوتا ہےاور کبھی ادارتی کنٹرول میڈیا مالکان کے مفادات کے لیے غیرمؤثر کر دیا جاتا ہے۔ امریکا اور بھارت جیسی بڑی جمہوریتوں میں بھی میڈیا کی غیرجانبداری پر سوال اٹھتے ہیں ۔

اب میڈیا انقلاب اٹل ہے، صحافت تبدیل ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ صحافتی اخلاقیات بھی، اب خبروں اور اطلاعات کی اشاعت ہر شہری کی دسترس میں ہے۔انٹرنیٹ بھی صحافت کی نئی شکلوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، یہ میڈیا فوری بھی ہے اور انٹرایکٹو بھی۔

میڈیا کے ماحول میں افراتفری چھائی ہے،پیشہ ور صحافیوں کو اب ٹویٹر، بلاگرز اور  شوقیہ صحافیوں کے ساتھ موازنے اور مسابقت کا سامنا ہے ۔ شوقیہ  صحافی  سوشل میڈیا کو صحافت میں دخل کے لیے استعمال کرتا اور اپنے نظریہ، مقاصد اور سوچ کے پرچار کے لیے صحافتی طریقے استعمال کرتا ہے۔

یہ میڈیا کا انقلاب ہے، ہر انقلاب کے دوران نئے امکانات ابھرتے ہیں اور روایتی طریقوں کو خطرات لاحق ہوتے ہیں، خبر کے متلاشی جب سے روایتی طریقوں سے ہجرت کر رہے ہیں تب سے روایتی نیوز روم سکڑ رہے ہیں، صحافتی معیشت خطرے میں ہے،بظاہر صحافت کا مستقبل تشویش  سے بھرا ہے لیکن صحافت میں تجربات بھی تیز ہو رہے ہیں، ڈیجیٹل میڈیا بھی ایسا ہی ایک تجربہ ہے لیکن ڈیجیٹل میڈیا میں روایتی رپورٹنگ چلے گی نہ خبر کا روایتی انداز، اب اسلوب بدلنا ہوگا لیکن اس کے ساتھ صحافتی اخلاقیات کا تحفظ بھی لازم اور سب سے مشکل محاذ ہے۔

اصول اور اخلاقیات

بنیادی سوال یہ ہے کہ موجودہ میڈیا اخلاقیات آج اور آنے والے کل کے لیے کس قدر موزوں ہے؟ ۔ اب  شوقیہ صحافی یوٹیوب پر بھی ہیں، فیس بک  اور ٹویٹر سمیت دیگر سوشل میڈیا پر بھی ۔ پروفیشنل میڈیا اصول اور اخلاقیات ، ان شوقیہ صحافیوں  کو پتہ ہیں اور نہ ہی وہ کسی اصول کو خاطر میں لا رہے ہیں ۔

روایتی صحافت ثقاہت، درستی، اشاعت سے پہلے تصدیق، توازن، غیر جانبداری اور ادارتی کنٹرول کی اقدار کے ساتھ آن لائن صحافتی  کلچر سے نبرد آزما ہے، آن لائن صحافت  کا کلچر جانبداری، فوری، اشاعت کے بعد تصدیق اور شوقیہ صحافیوں کا ہے۔

ایک اور معاملہ مقامی میڈیا کی انٹرنیٹ کی وجہ سے بین الاقوامی رسائی اور موجودگی ہے، مقامی میڈیا  بین الاقوامی تنازعات کو اپنے حالات اور پس منظر میں دیکھتا ہے، مقامی میڈیا کی بین الاقوامی سطح پر موجودگی کے معاملے کو ٹویٹر کی پچھلی انتظامیہ نے اجاگر کیا تھا اور کئی  میڈیا ہاؤسز  کو لیبل لگائے گئے تھے( جیسے چین کا میڈیا، روس کا میڈیا، کسی ملک کا سرکاری عہدیدار جیسے لیبل) تاکہ جانبداری اور تنازع کی صورت میں ان کی اشاعت کا مقصد واضح ہو سکے۔

ان حالات میں میڈیا کو نئے اصول اور اخلاقیات وضع کرنے کی ضرورت ہے، حکومتیں اور انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر، سوشل میڈیا کمپنیاں اپنے اصول اور اخلاقیات وضع کر چکی ہیں لیکن ان اصولوں کو بھی کئی بار سچ دبانے کی کوشش قرار دیا جاتا ہے۔

میڈیا انقلاب میں صحافتی بقا کی کوشش

ابھی تک کئی نیوز ویب سائٹس  پرنٹ سیکشن کی طرز پر چلائی جا رہی ہیں، کچھ براڈ کاسٹ کو ماڈل بنائے ہوئے ہیں اور کچھ ویب سائٹس صرف سوشل میڈیا پوسٹس کو بلا تصدیق پھیلانے میں مصروف ہیں ۔

ان حالات میں اب ہمارے نزدیک اس کا یہی حل ہے کہ شوقیہ صحافیوں، بلاگرز اور پیشہ ور صحافیوں کو ایک مرکزی پلیٹ فارم مہیا کیا جائے، ایک نئے انداز کا نیوز روم تشکیل دیا جائے، نیوز روم سے  شوقیہ صحافی اور بلاگرز بھی وابستہ ہوں اور پیشہ ور صحافی بھی، ایڈیٹرز بھی  نئے کردار کے ساتھ ہوں، کچھ ایڈیٹرز شوقیہ صحافیوں ، بلاگرز  اور انٹرایکٹو چیٹ سے آنے والی خبروں اور تجزیوں کو چھان پھٹک کر نئی شکلوں  اور اقسام میں پیش کریں۔  اس نئے نیوز روم میں  پرنٹ، براڈ کاسٹ سیکشن، اور آن لائن   پروڈکشن  کی تین تہیں ہوں۔

نیوز روم کی تشکیل نو

تفصیلی رپورٹس، فوری خبروں کے لیے پرنٹ سیکشن کو بروئے کار لایا جائے، ایڈیٹرز پرنٹ سیکشن کو پرنٹ کے حساب سے دیکھیں اور پرنٹ میڈیا کے اصول اور اخلاقیات کا مکمل خیال رکھا جائے۔

براڈ کاسٹ سیکشن کے لیے  پروڈیوسرز ہوں جو خبر کے حصول، اس کی پروڈکشن اور اشاعت کے لیے براڈ کاسٹ کے مروج اصولوں  اور اخلاقیات کو بروئے کار لائیں ۔

اور تیسرا سیکشن آن لائن پروڈکشن کا ہو، اس سیکشن کے پروڈیوسرز کو کمیونٹی پروڈیوسرز کا نام دیا جا سکتا ہے۔  ان کمیونٹی پروڈیوسرز  کو سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ مواد ، قارئین کی ای میلز سے آنے والی معلومات  کی چھان پھٹک کر کے ویڈیو، آڈیو یا پرنٹ رپورٹ کی تیاری کی ذمہ داری دی جائے۔

شوقیہ صحافی بلاگرز پورے ملک اور دنیا بھر سے ہوں ، ان میں  کچھ مفت لکھیں گے اور کچھ کو فری لانس صحافیوں کی طرز پر ادائیگی ہو۔

ڈیجیٹل میڈیا کی اخلاقیات کا مشکل ترین سوال

صحافی کون ہے؟

ٹیکنالوجی نے میڈیا کو بھی جمہوری بنا دیا ہے،اب صحافی کون ہے اور کون نہیں؟ شناخت مشکل تر ہو گئی ہے، پہلے پرنٹ اور براڈ کاسٹ سے وابستہ پیشہ ور صحافیوں کی شناخت آسان تھی، اب کسی براڈ کاسٹ میڈیا کے ساتھ مزاحیہ پروگرام  کرنے والا کامیڈین خود کو صحافی بھی نہیں کہلواتا اور ایک مختلف انداز میں وہی کام کرنے کی کوشش کرتا ہے جو  دراصل ایک پیشہ ور صحافی کے کرنے کا ہے، عوام  بھی اس کامیڈین کو صحافی کے طور پر دیکھتے ہیں اور کئی  میگزین بھی کامیڈینز کو بااثر صحافی لکھنے سے گریز نہیں کرتے۔

کیا فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے والوں کو صحافی کہا جا سکتا ہے؟

صحافت کیا ہے؟

صحافی کون ہے ؟ اس سوال سے ایک اور سوال اٹھتا ہے ، صحافت کیا ہے؟

صحافی کی کوئی واضح اور متعین وضاحت کا فقدان اس تنازع کا باعث بنتا ہے کہ کون صحافت کر رہا ہے اور صحافت کیا ہے؟ اور کچھ لوگ اس بات کو بھی اہم نہیں مانتے کہ صحافت کیا ہے بلکہ ان کے نزدیک زیادہ اہم یہ ہے کہ کون خود کو صحافی کہہ سکتا ہے؟

ہمارے نزدیک صحافت عوام کو درست  اور ذمہ داری کے ساتھ آگاہی فراہم کرنا ہے۔ ایک مصنف  جو معلومات جمع کرتا ہے، ان کی چھان پھٹک کرتا ہے اور اخلاقی اعتبار سے ذمہ دارانہ آگاہی فراہم کرنے کی اہلیت رکھتا ہے،تحقیق و تفتیش کی صلاحیت رکھتا ہے،  وہ صحافی ہے۔ ابلاغ کے لیے میڈیا ٹیکنالوجی  کا علم  اور اداروں کے کام کرنے کے طریقہ کا درست ادراک ، اس کا علم، اس کی پیشہ ورانہ مہارت اور مواصلاتی  تربیت بھی آج کے دور میں اہم ہیں۔  جو لوگ ان اصولی تقاضوں کو پورا نہیں کرتے وہ خود کو صحافی تو کہہ سکتے ہیں لیکن انہیں صحافی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

گمنامی

آن لائن میڈیا میں گمنامی کو آسانی سے قبول کر لیا جاتا ہے جبکہ مرکزی دھارے کے میڈیا ہاؤسز میں لکھنے والے کی شناخت لازمی ہوتی ہے۔ صحافت میں گمنام ذرائع کو بھی کچھ صحافتی اصولوں اور اخلاقیات کے ساتھ کم سے کم استعمال کرنے پر زور دیا جاتا ہے،ایڈیٹر کے نام خطوط میں بھی لکھنے والے کا نام اور شناخت ظاہر کرنا لازم ہے اور ایڈیٹر ضروری تقاضے پورے کرنے کے بعد نام اور شناخت پوشیدہ رکھنے کا مجاز ہے۔ موجودہ دور میں گمنام ذرائع سے طاقتوروں کو بے نقاب  کرنے کا چلن عام ہے اور اسے کچھ لوگ سراہتے ہیں  لیکن ناقدین کہتے ہیں یہ غیر ذمہ دارانہ اور نقصان دہ تبصروں کی حوصلہ افزائی کا ایک طریقہ ہے۔

ہم اپنے ذرائع کے تحفظ کے لیے ذرائع کو اصولوں اور اخلاقیات کے ساتھ گمنام رکھنے کی تائید کرتے ہیں لیکن غیر ذمہ دارنہ اور نقصان دہ تبصروں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں ۔

افواہیں اور تصحیح

ٹویٹر، فیس بک، یوٹیوب، بلاگز، سیل فونز اور ای میلز کے ذریعے  رپورٹس اور تصویروں کی شکل میں افواہیں حیرت انگیز رفتار سے پوری دنیا میں گردش کرتی ہیں۔ ان افواہوں کا زور اور جھکڑ اس قدر شدید ہوتا ہے کہ نیوز رومز پر دباؤ بڑھ جاتا ہے اور ان افواہوں کے ماخذ ، حقائق   کی  مناسب چھان پھٹک  کا وقت ہی نہیں ملتا، بڑی بڑی نیوز ایجنسیاں بھی ان افواہوں کو اٹھالیتی ہیں،اور کبھی کبھار ایسی ایک افواہ کو آن لائن اٹھالینے کا مطلب پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دینا ہوسکتا ہے۔جیسے کہ کوئی جوہری حادثے کی افواہ، اب صحافی لائیو بلاگنگ کرتے ہیں اور جب کوئی اس رفتار سے معلومات کی فراہمی کرتا ہے تو غلطی کا احتمال رہتا ہے۔

ایک عام چلن ہے کہ لائیو بلاگنگ سے ملنے والی معلومات کو آن لائن اٹھا لیا جاتا ہے اور کسی دوسرے ذریعے سے تصدیق نہیں کی جا رہی۔ ہماری نظر میں یہ درست طریقہ نہیں ۔ ہم ایسی کسی معلومات کی فوری اور بغیر تصدیق اشاعت کو درست نہیں سمجھتے۔ ایسا ممکن ہے کہ کوئی افواہ بہت زور پکڑ لے اور اس کی تصدیق اور تردید ممکن نہ رہے تو ہم اس کے مختلف پہلوؤں پر ماہرین سے رائے لے کر اسے شامل شاعت کردیں۔

غیر جانبداری، مفادات کا ٹکراؤ، دھڑے بندی کی صحافت

آن لائن میڈیا ہر کسی کو رائے دینے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، بہت سے بلاگرز اپنی سوچ اور ذہن کو فخر سے بیان کرتے ہیں، اس کے مقابلے میں مین سٹریم میڈیا کو غیر جانبداری سے واقعات اور حالات کا احاطہ کرنا ہوتا ہے۔  بہت سے صحافی آن لائن  خود کو کسی جماعت کےموقف سے جوڑنے میں حرج محسوس نہیں کرتے، ایسے صحافی خود کو کسی جماعت کے متعصب کارکن کے طور پر دیکھتے ہیں، معروضی اور غیر جانبدار تجزیئے کو مسترد کرنے  سے ذرا نہیں ہچکچاتے۔

متعصبانہ صحافت انیسویں صدی میں رائج تھی جو آن لائن میڈیا کے ساتھ لوٹ رہی ہے ، یہ صحافت دراصل کسی ایک جماعت یا گروہ کی ترجمانی ہے ۔ اس سے میڈیا میں سنگین اخلاقی مسائل جنم لے رہے ہیں ۔ حالات اس نہج پر  ہیں کہ معاشی اعتبار سے کمزور لیکن غیر جانبداری کے اصول پر قائم نیوزروم بھی خود کو جانبداری یا تعصب کی صحافت پر مجبور محسوس کرتے ہیں ۔

ایک اور معاملہ یہ ہے کہ غیرجانبداری کو اب پسند بھی نہیں کیا جا رہا ، متعصبانہ رائے رکھنے والے کے بارے میں خیال کیا جاتا  ہے کہ وہ مضبوط موقف رکھنے والی شخصیت ہے ۔ اگر کسی رپورٹر یا ایڈیٹر کو مفادات کے تصادم کی بنیاد پر معطل کیا جائے تو یہ بھی قارئین اور سامعین کو اچھا نہیں لگتا اور سنسر شپ کا الزام آ جا تا ہے جو کسی میڈیا ہاؤس  کی ساکھ کو متاثر کر دیتا ہے۔

ہم متعصب اور جانبدار صحافت پر یقین نہیں رکھتے اور رپورٹنگ کو مکمل غیر جانبدار رکھنے پر قائم ہیں اور اس کے ساتھ آزادی اظہار پر قدغن بھی عائد نہیں کرتے، اس لیے تجزیئے اور تبصرے مختلف الخیال شخصیات اور گروہوں کی نمائندگی کر سکتے ہیں ۔