Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

تمام پارلیمانی جماعتیں حکومت میں، کوئی اپوزیشن نہیں، محمد علی درانی نیا فارمولہ لے آئے

Published

on

سابق وفاقی وزیر محمد علی درانی نے عام انتخابات کے بعد ملک میں پانچ سال کے لئے منتخب ’ نیشنل یونیٹی گورنمنٹ‘ نانے کا پلان پیش کردیا،ملک کو درپیش سنگین ترین بحرانوں سے نکالنے کے لئے نیشنل یونیٹی گورنمنٹ ایک متفقہ ’قومی ایجنڈے‘ پر عمل درآمد کرائے گی ،ماضی میں برطانیہ، شمالی آئر لینڈ اور جنوبی افریقہ میں ایسی حکومتیں بنائی گئیں، محمد علی درانی کا کہنا ہے کہ انتخابات کے انعقاد سے قبل تمام سیاسی جماعتیں پلان کے نکات پر اتفاق کریں۔

سابق وفاقی وزیر سینیٹر محمد علی درانی نے عام انتخابات کے بعد ملک میں پانچ سال کے لئے منتخب نیشنل یونیٹی گورنمنٹ بنانے کا پلان پیش کردیا۔ جمہوریت، معیشت اور فوج ، کے عنوان سے ملک میں سیاسی اتفاق رائے کے پہلے مرحلے کی تکمیل کے بعد محمد علی درانی نے یہ نیا پلان پیش کیا ہے جس میں تجویز کیا گیا ہے کہ عام انتخابات میں منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں آنے والی تمام سیاسی جماعتوں کی متحدہ قومی حکومت تشکیل دی جائے جو پانچ سال کی مدت میں ملک کو درپیش موجودہ سنگین ترین بحرانوں سے نکالنے کے لئے ایک متفقہ ’قومی ایجنڈے‘ پر عمل درآمد کرائے۔

سینیٹر درانی نے دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ، 1988میں شمالی آئر لینڈ اور 1994 میں جنوبی افریقہ میں نیلسن مینڈیلا کی نیشنل یونیٹی گورنمنٹ کی مثالیں دی ہیں اور اصرار کیا ہے کہ ان ممالک نے پارلیمانی ڈھانچے میں رہتے ہوئے یہ حکومتیں بنائیں۔ ان تاریخی حوالوں سے راہنمائی لیتے ہوئے پاکستان میں بھی نیشنل یونیٹی گورنمنٹ بنائی جائے جس میں باضابطہ کوئی اپوزیشن نہیں ہوگی بلکہ تمام تمام سیاسی جماعتیں مل کر ایک قومی ایجنڈے کی کامیابی کے لئے کام کریں۔

محمد علی درانی نے کہاکہ ایک محب وطن مضطرب پاکستانی کے طورپر یہ پلان پیش کر رہا ہوں کیونکہ وطن عزیز اس وقت شدید معاشی مشکلات اور پریشان کن سیاسی ماحول سے دوچار ہے جس سے آپ نہ صرف پوری طرح آگاہ ہیں بلکہ اس پر رنجیدہ بھی ہیں۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہے جو قوم سے وفاداری کا دعویٰ کرنے والے تمام لوگوں کی اجتماعی توجہ اور اس امر کا متقاضی ہے کہ مشترکہ کوششوں اور اتحاد سے آگے بڑھنے کی راہ تلاش کی جائے۔ ایک ایسا راستہ جو ملک کو قومی یک جہتی اور سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ معاشی بہتری کی طرف لے کر جائے۔

انہوں نے کہاکہ غیر یقینی کے اس دور میں ہمیں گورننس کے حوالے سے ایک نیا طرز فکر اپنانے کی اشد ضرورت ہے اور اس مقصد کی خاطر ہمیں تاریخی حوالوں سے راہنمائی لینی چاہیے ۔ یہ مثالیں اُن معاشروں اور ممالک کی ہیں جنہوں نے اپنے سماجی و سیاسی بحرانوں کا مقابلہ پارلیمانی ڈھانچے کے حوالے سے نیا اصلاحاتی نقطہ نظر اپنا کر کیا۔

سابق وفاقی وزیر نے برطانیہ کی مثال دیتے ہوئے کہاکہ دوسری جنگ عظیم کے دوران ونسٹن چرچل کی قیادت میں نازی جرمنی کے خلاف جنگ سے پیدا ہونے والے بے پناہ چیلنجوں کا سامنا کیا گیا تھا۔ اسی طرح ، 1989 میں ، شمالی آئرلینڈ میں قوم پرست اور یونینسٹ طبقات کے درمیان دہائیوں سے جاری تنازعات کو حل کرنے کے لئے ’گڈ فرائیڈے‘ کا معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے نے سیاسی تعاون کا ایک فریم ورک فراہم کیا۔ مزید برآں ، 1990 کی دہائی کے اوائل میں جنوبی افریقہ میں ایک اہم تبدیلی آئی ، جس کے نتیجے میں 1994 میں نیلسن منڈیلا کی دور اندیش قیادت نے قومی اتحاد کی عبوری حکومت تشکیل دی۔ نیشنل یونٹی کی اس حکومت نے نسلی امتیاز سے نجات اور جمہوریت کی طرف آنے کا تاریخی سفر کامیابی سے طے کیا۔

انہون نے کہا کہ میں اس پلان کے ساتھ آپ کی خدمت میں وہ تاریخی حوالے بھی منسلک کررہا ہوں تاکہ آپ ان مثالوں کا مطالعہ فرماسکیں۔ محمد علی درانی نے کہاکہ اگرچہ ہر ملک کے حالات وواقعات میں کچھ فرق ہوسکتا ہے لیکن ان تمام مثالوں اور حوالوں میں ایک قدر مشترک ہے یعنی مل کر مشکلات کے حل کی راہ۔ مختلف اور متصادم سیاسی بیانیوں اور تقسیم شدہ رائے عامہ کے باجود انتہائی مشکل حالات کا مقابلہ مشترکہ ومتحدہ محاذ کی تشکیل کے ذریعے کیاگیا۔ میری رائے میںآج پاکستان اِسی صورتحال کا شکار ہے۔ لہٰذا ملک میں آئندہ پانچ سال کے لئے ’نیشنل یونٹی گورنمنٹ‘ کی تشکیل ناگزیر ہے۔ ہمارا مقصد ملک میں اتحاد اور یک جہتی پیدا کرنے کا احساس پیدا کرنا ہونا چاہیے جو تقسیم در تقسیم اور سیاسی اختلافات سے بالا تر ہو۔ مقصد ایک ایسا حکومتی نظام قائم کرنا ہونا چاہیے جو عوام کے خدشات اور مسائل دور کرے، سیاسی جانبداری کی زنجیروں سے آزاد ہو کر ایک ایسا حکومتی نظام وجود میں لائے جو یکجائی اور ہم آہنگی کے ساتھ کام کرسکے۔ نہایت ضروری ہے کہ ہم قومی مفادات، جمہوریت اور اپنے اداروں کے احترام کو اپنے سیاسی اختلافات سے الگ رکھیں۔ محاذ آرائی اور مسلسل تصادم کا ماحول ختم کرکے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لئے قومی حکومت قائم اور اداروں کے درمیان باہمی تعاون کا ماحول پیداکیاجائے۔ایک قومی ایجنڈا تیار کیاجائے جس میں معیشت کی بحالی، مہنگائی سے نجات سمیت درپیش مشکلات و فوری مسائل کے حل اور قومی یک جہتی واتحاد کے فروغ کے نکات شامل ہوں۔ اس قومی ایجنڈے کے لئے تمام سیاسی جماعتیں اور فریقین کے درمیان اتفاق رائے پیدا کیاجائے۔ قومی مفاد کو سب سے مقدم رکھتے ہوئے تمام فریقین نیشنل یونٹی گورنمنٹ کے ذریعے ’متفقہ قومی ایجنڈے‘ پر عمل درآمد کرائیں۔

اپنے پلان کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے تجویز دی کہ انتخابات کے انعقاد سے قبل تمام سیاسی جماعتیں پلان کے نکات پر اتفاق کریں۔

محمد علی درانی پلان کے مطابق نیشنل یونیٹی گورنمنٹ کی قیادت انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں جیت کر پارلیمنٹ میں آنے والی جماعت کرے۔ پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت کی طرف سے وزیر اعظم کے عہدے کے لئے تین امیدوار نامزد کئے جائیں۔ ان تین نامزد کردہ امیدواروں میں سے ایک شخص کا پارلیمنٹ ووٹنگ کے ذریعے انتخاب کرے۔

درانی پلان کے مطابق کابینہ کے ارکان کی زیادہ سے زیادہ تعداد 30 ہوگی۔ کابینہ ارکان کا قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر انتخاب کیاجائے۔ پارلیمنٹ میں حاصل کردہ نشستوں کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کو کابینہ میں نمائندگی دی جائے۔ نیشنل یونیٹی گورنمنٹ اقتدار میں آنے کے چھ ماہ کے اندر شفاف بلدیاتی انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی نگرانی میں بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔ قومی حکومت اس امر کو بھی یقینی بنائے کہ مستقبل میں قومی اور صوبائی انتخابات کے انعقاد کے دِن ہی ملک میں بلدیاتی انتخابات بھی کرائے جائیں تاکہ انتخابات پر انتظامی اثر و رسوخ ختم ہوسکے۔نیشنل یونیٹی گورنمنٹ میں کوئی باضابطہ اپوزیشن موجود نہیں ہوگی بلکہ حکومت کے تمام ارکان قومی ایجنڈے سے وفاداری کا عہد کریں گے۔ ذاتی، سیاسی اور جماعتی مفادات کو مشترکہ قومی ایجنڈے سے بالا تر رکھا جائے گا۔ قومی حکومت کی اس مدت کے دوران حزب اختلاف سے متعلقہ آئینی دفعات اور تقاضے غیر فعال رہیں گی۔عام انتخابات کے بعد قومی حکومت آئیندہ 5 سال تک قائم ہوگی۔ انتخابات میں حصہ لینے والی تمام جماعتیں آئندہ انتخابات سے قبل نیشنل یونٹی گورنمنٹ کی تشکیل پر متفق ہوں۔ اس طریقہ کار سے ملک و قوم کو بے پناہ فوائد مل سکتے ہیں۔ اس سے قومی سلامتی مضبوط ہوگی، دفاع اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اشتراک عمل مزید بڑھے گا اور داخلی اور خارجی خطرات کا سدباب ہوگا۔ انتظامی امور کی انجام دہی آسان ہوگی، موثر گورننس یقینی ہوسکے گی جبکہ سیاسی جماعتوں میں اشتراک عمل کی بدولت قانون سازی کی موثر اور جلد منظوری کی راہ بھی ہموار ہوگی۔ مجموعی طورپر اس عمل سے جامع پالیسیوں کی تشکیل ممکن ہوپائے گی اور موثر ایڈمنسٹریشن کی راہ ہموار ہونے سے عمل درآمد یقینی ہوگا۔

محمد علی درانی نے کہاکہ میں ایک بار پھر نیشنل یونٹی گورنمنٹ کی تشکیل کے اس پلان کی ضرورت پر زور دینا چاہوں گا کیونکہ بحیثیت قوم آج ہمیں جن مصائب ومشکلات کا سامنا ہے، ان کی سنگینی کے پیش نظر سیاسی اتحاد کی ضرورت ہمیشہ سے بڑھ کر ہے۔ آئیں! ہم ان چیلنجز کا مقابلہ اجتماعی دانش سے کریں، ذاتی مفادات کی سوچ ترک کرتے ہوئے ایک متحد و مضبوط قوم کے تصور کو اپنائیں۔ میں اپنا یہ پلان ان تاریخی حوالوں کی تفصیل کے ساتھ معاشرے کے تمام طبقات تک پہنچاﺅں گا۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین