ٹاپ سٹوریز
ایک اور پن بجلی منصوبہ تھرمل مافیا کی بھینٹ چڑھ گیا
سستی بجلی کا ایک اور منصوبہ تھرمل مافیا کی بھینٹ چڑھ گیا۔ دریائے سندہ پر 7ہزار 1سو میگاواٹ صلاحیت کا بونجی پن بجلی منصوبہ گزشتہ 17 سال سے فائلوں میں لاپتہ ہو چکا ہے۔
فزیبلیٹی سٹڈی ہوئی، انجینئرنگ ڈائزائن مکمل ہوا 2ارب روپے بھی خرچ کیے گئے، متعلقہ اداروں نے بونجی پن بجلی منصوبے کی تعمیر کا این او سی بھی دے دیا لیکن تعمیر آج تک شروع نہ ہو سکی ۔
واپڈا کی دستاویزات کے مطابق دریائے سندہ پر گلگت سے 83 کلومیٹر دور بونجی کے مقام پر پن بجلی منصوبہ ڈیزائن کیا گیا۔ 2005 میں منصوبے کی تعمیر کے لیے فزیبیلٹی اسٹڈی اور انجینئرنگ ڈیزائن پر عالمی کمپنیوں نے کام کا آغاز کیا اور 2 ارب روپے مالیت سے بونجی پن بجلی منصوبے کی فزیبیلٹی اسٹڈی اور ڈئزائن تیار کیا گیا۔
سرکاری ریکارڈ کے مطابق بونجی پن بجلی منصوبے کی منصوبہ بندی 2002 کی پاور پالیسی میں کی گئی تھی یہ منصوبہ 9 سال کی مدت میں مکمل ہونا تھا۔ منصوبے کی تعمیر کے لیے واپڈا نے 31 مارچ 2009 میں فزیبیلٹی اسٹڈی اور ڈئزائن حکومت کو جمع کرا دیا۔
4 سال بعد 30ستمبر 2013 کو بونجی پن بجلی منصوبے کا ڈیزائن اور فزیبلٹی اسٹڈی منظور کر لی گئی۔2014 میں منصوبے کا پی سی ون مکمل کیا گیا جس کے تحت بونجی پن بجلی منصوبے کی تعمیری لاگت کا اندازہ 1ہزار 3سو 28 ارب روپے لگایا گیا۔
اکتوبر 2015 میں گلگت کے شعبہ تحفظ ماحولیات نے بونجی پن بجلی منصوبے کی تعمیر کا این او سی جاری کر دیا۔2 دسمبر 2015 میں سی ڈی ڈبلیو پی نے بونجی پن بجلی منصوبے کو قابل عمل اور معیشت کے لیے فائدہ مند قرار دیا اور واپڈا کو منصوبے کا پی سی ون جمع کرانے کی ہدایات دیں۔
یکم اپریل 2016 کوواپڈا نے اقتصادی امور ڈویژن کو خط لکھا کہ بونجی پن بجلی منصوبے کی تعمیر کے لیے فنڈنگ کا بندوبست کیا جائے اور اس سلسلے میں عالمی مالیاتی اداروں سے مالی معاونت حاصل کی جائے۔ 20 نومبر 2017 کو وزارت پانی و بجلی نے موقف اختیار کیا کہ حکومت نے عالمی مالیاتی اداروں سے فنڈنگ کے لیے رابطے کیے لیکن ڈونرز نے دل چسپی نہیں لی۔ اس دوران بونجی پن بجلی منصوبے کی تعمیری لاگت میں مزید اضافہ ہو گیا۔
2017 میں نظر ثانی پی سی ون کے مطابق بونجی پن بجلی منصوبے کی تعمیری لاگت بڑھ کر 1ہزار 5 سو 29 ارب روپے تک جا پہنچی۔ 18 اگست 2019 میں واپڈا نے ایک بار پھر حکومت کو خط لکھا کہ بونجی پن بجلی منصوبہ معیشت کے لیے بہت فائدہ مند ہے اس لیے اس کی تعمیر کے لیے فنڈز فراہم کیے جایئں لیکن حکومت آج تک خاموش ہے۔
واپڈا حکام کے مطابق اگر یہ منصوبہ تعمیر ہو جاتا تو ملک میں پن بجلی کی پیداواری صلاحیت 20ہزار میگاواٹ تک ہوتی یعنی 80 فی صد بجلی پن بجلی ذرائع سے پیدا ہو رہی ہوتی ۔ اس کے علاوہ گرین انرجی کی پیداوار پر اقوام متحدہ 10 برسوں میں74 ارب روپے کاربن کریڈٹ کے طور پر ادا کرتا۔
-
کھیل11 مہینے ago
ورلڈ کپ میں ٹیم کی بدترین کارکردگی، سری لنکا نے اپنا کرکٹ بورڈ برطرف کردیا
-
کھیل1 سال ago
کم عمر لڑکی کی سیکس ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے پر ریئل میڈرڈ کے 3 کھلاڑی گرفتار
-
تازہ ترین5 مہینے ago
چیئرمین پی سی بی دو طرفہ سیریز پر بات کرنے آئرلینڈ پہنچ گئے
-
پاکستان5 مہینے ago
مریم نواز سے گورنر پنجاب کی ملاقات،صوبے کی ترقی کے لیے اہم امور پر تبادلہ خیال
-
ٹاپ سٹوریز1 سال ago
آئی ایم ایف بورڈ سے معاہدہ منظور،1.2 ارب ڈالر کا فوری اجرا ممکن، باقی رقم دو سہ ماہی جائزوں سے مشروط
-
کالم1 سال ago
اسلام میں عبادت کا تصور
-
ٹاپ سٹوریز4 مہینے ago
اسحاق ڈار سے امریکی سفیر کی ملاقات، سکیورٹی اور اقتصادی تعاون سمیت دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال
-
تازہ ترین8 مہینے ago
بلا ٹرکاں والا سے امیر بالاج تک لاہور انڈر ورلڈ مافیا کی دشمنیاں جو سیکڑوں زندگیاں تباہ کرگئیں