Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

جنوبی ایشیا

بھارتی مسلمانوں کی تقدیر نازک موڑ پر، مساجد کا وجود خطرے میں پڑ گیا

Published

on

اترپردیش کے تاریخی شہر الہ آباد، جو اب پرگیا راج بنا دیا گیا ہے، میں نو جنوری کو تاریخی شاہی مسجد سڑک کی توسیع کے منصوبے کی آڑ میں مسمار کردی گئی، باوجود اس کے کہ شاہی مسجد کو گرانے کے خلاف حکم امتناع کی درخواست زیر سماعت تھی۔

اس واقعہ پر عوامی غم و غصہ جس قدر سامنے آنا چاہئے تھا یا ماضی میں ایسے واقعات پر جس قدر ردعمل آتا رہا،  بالکل نہیں آیا، یہ معاملہ بمشکل چند ایک ہیڈ لائنز میں جگہ بنا پایا۔ بھارت میں بلڈوزر کی  مدد سے گھروں اور مساجد کا گرایا جانا اب معمول کی بات بن چکی ہے اور اب ایسے کسی واقعہ پر طوفان نہیں آتا۔

سڑک کی توسیع کے لیے شاہی مسجد کو گرانا پہلا واقعہ نہیں، اس سے پہلے پچھلے سال نومبر میں مظفر نگر کی تین سو سال پرانی مسجد کو بھی سڑک کی توسیع کے لیے منہدم کیا گیا۔

اس سے پہلے اترپردیش کے علاقے بداؤں میں آٹھ سو سال پرانی اور قومی ورثہ کی حیثیت رکھنے والی شمسی جامعہ مسجد پر پچھلے  سال تنازع اٹھ کھڑا ہوا جب ایک مقامی کسان نے عدالت میں پٹیشن دائر کی کہ یہ مسجد لارڈ شیوا  مندر کو گرا کر بنائی گئی تھی اس لیے اس زمین کی  ملکیت اور اس میں پوجا اس کا حق ہے۔ اس پٹیشنر کو انتہا پسند گروہ اکھل بھارت ہندو مہا سبھا کی حمایت اور سرپرستی حاصل ہے۔

بھارت میں مساجد کے غیر قانونی ہونے کے دعوے کی بنیاد انتہا پسندوں کے اس نظریئے پر ہے کہ بھارت میں تمام مساجد  مسلم حکمرانوں کے ادوار میں مندروں کو گرا کر بنائی گئیں۔

بات اب مساجد تک محدود نہیں بلکہ مسلم ادوار کی ہر نشانی انتہا پسندوں کو کھٹکتی ہے، حال ہی میں تاج محل کے متعلق دعویٰ سامنے آیا کہ یہ  دراصل ایک مندر تھا اور ہر بار کی طرح اس بار بھی کوئی شہادت اور ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔

بھارتی مسلمانوں کی تقدیر ایک نازک موڑ پر ہے، بھارت بھر میں  درجنوں مساجد کے متعلق انتہا پسندوں نے عدالتوں میں درخواستیں جمع کرا رکھی ہیں کہ وہ غیر قانونی عمارتیں ہیں ۔

پچھلے چند برسوں سے ہندو رضاکاروں کے جتھے بھی دوبارہ سے متحرک ہو رہے ہیں جو مساجد گرانے اور ان پر حملوں کے لیے استعمال ہوتے آئے ہیں، بابری مسجد گرانے کے لیے بھی ایسے ہی رضاکار جتھے بنائے گئے تھے۔پچھلے سال ہندو تہواروں بشمول رام نومی اور ہنومان جیانتی کے مواقع پر ہندو جتھے مسلم آبادیوں میں داخل ہوئے، لوگوں کو ہراساں کیا،توہین آمیز نعرے لگائے اور پھر مساجد پر زعفرانی جھنڈے گاڑے۔

ایم ایس گولوالکر، جو ہندو قوم پرست نظریہ یا ہندوتوا کے بانیوں میں سے ایک ہیں، نے اپنی  کتاب میں  دعویٰ کیا کہ ’جہاں بھی کوئی مسجد یا مسلم محلہ [کالونی] ہے، مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی اپنی ہے۔ علیحدہ علاقہ‘۔  یہ بات اہم ہے کہ ہندوستان کی سرزمین کی ملکیت صرف ہندوؤں کی ، یہ عقیدہ اور دعویٰ بی جے پی کے ابھرنے کے ساتھ سامنے نہیں آیا بلکہ ہندو قوم پرست سوچ کا مرکزی اصول ہے۔

یہ کوئی اتفاقی بات نہیں تھی کہ یہ ایک تاریخی مسجد کی تباہی تھی جس نے انتہائی دائیں بازو کی قوم پرست سیاست کے عروج کو ہوا دی جو آج ہندوستان پر حاوی ہے۔

چھ دسمبر 1992 کو مغلیہ دور کی ایک تاریخی مسجد، بابری مسجد کی غیر قانونی طور پر تباہی، تاریخ کے خلاف خاموش جنگ کا اعلان تھا۔ مسجد کو مذہبی رضاکاروں نے ملبے کا ڈھیر بنا دیا جنہوں نے دعویٰ کیا کہ اسی جگہ پر ایک قدیم رام مندر کھڑا تھا۔ مسمار کی گئی مسجد کی تصاویر نے بابری سے پہلے اور بعد کے ہندوستان کے تصور کی تصویر کشی کی ہے، جو ایک قوم پرست منصوبے کے آغاز کا اشارہ ہے جو ہندوستانی زمین پر  کثیر مذاہب کے وجود  کے تمام امکانات کو مسترد کرتا ہے۔

بابری مسجد کے انہدام نے، آزادی کے بعد ہندوستان کا سب سے اہم واحد واقعہ، کئی شہروں میں تشدد کو جنم دیا، جس کا اختتام فسادات پر ہوا۔

مقصد صرف بابری مسجد کو گرانا نہیں تھا کیونکہ نعرہ تھا بابری سے بس جھانکی ہے، کاشی متھرا باقی ہے ۔ آج کے واقعات اس نعرے کی حقیقت کو آشکار کرتے ہیں ۔

2019 میں بھارت کی سپریم کورٹ نے ایک حکم جاری کیا جس کے مطابق بابری مسجد کی زمین کو بھگوان رام کی جائے پیدائش کے طور پر ہندوؤں کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ اس نے دائیں بازو کو غیر قانونی ہجومی تشدد سے قانونی طریقوں کی طرف منتقل ہونے کا حوصلہ دیا۔

درحقیقت، ہندو گروپوں نے عدالتی مقدمات کے ذریعے متھرا اور وارانسی (جسے کاشی بھی کہا جاتا ہے) میں تاریخی مساجد کے وجود کو  مسلسل چیلنج کیا ہے۔ اور متھرا کی ایک عدالت نے عرضی گزاروں کے دعووں کی بنیاد پر پہلے ہی ایک سروے کا حکم دیا ہے کہ شاہی عیدگاہ مسجد کی زمین دراصل بھگوان کرشن کی جائے پیدائش ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین