Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

بڑھتی آبادی ملکی وسائل پر سب سے بڑا بوجھ!

Published

on

آج کل پاکستان کی معاشی بدحالی موضوع گفتگو ہے۔ بلاشبہ جس قسم کی صورت حال آج ہمارے ملک کو درپیش ہے اورقوم جن مسائل ومشکلات سے گذررہی ہے اس کی بڑی وجہ ہماری ابترمعاشی حالت ہی ہے لیکن میری نظرمیں معاشی بدحالی ملک کا بڑامسئلہ تو ہے سب سے بڑا یا بنیادی مسئلہ نہیں ہے۔ سب سے بڑا اوربنیادی مسئلہ جسے آپ ”تمام مسائل کی ماں“ کہہ سکتے ہیں وہ اس وقت بڑھتی ہوئی آبادی کا ہے۔ یہ وہ ”جن“ یا ”سونامی“ ہے جو ملک کے وسائل کو تیزی سے ہڑپ کرتا چلا جارہا ہے۔ اسی مسئلے کی کوکھ سے دوسرے مسائل جنم لے رہے ہیں، جن میں بد حال معیشت بھی شامل ہے۔

پاکستان کی کل آبادی

پاکستان میں ہر دس سال بعد مردم شماری ہوتی ہے۔ آخری مردم شماری 2017ءمیں ہوئی تھی جس کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 22 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ لیکن یہ اعداد و شماراس لیے قابل اعتبارنہیں ہیں کہ ہمارے ہاں رائے شماری غیرسائنسی بنیادوں پر کی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے اس میں بہت سی کمزوریاں اور خامیاں رہ جاتی ہیں۔ بہت سے لوگ جو خانہ بدوشی کی زندگی بسر کر رہے ہیں یا جو سفر میں ہوتے ہیں وہ شمار نہیں ہو پاتے۔ لیکن یہ بات خاصی تشویشناک ہے کہ ہم آبادی کے لحاظ سے دنیا میں پانچواں نمبر،جبکہ رقبے کے 23 واں نمبر رکھتے ہیں۔ یعنی اعداد شمار کے مطابق آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک چین ہے جس کی آبادی ایک ارب 43 کروڑ ، دوسرے نمبر پر بھارت ایک ارب 38 کروڑ، تیسرے نمبر پر امریکہ 33 کروڑ، چوتھے نمبر پر انڈونیشیا 27 کروڑ، پانچویں نمبر پر پاکستان ساڑھے 22 کروڑ، چھٹے نمبر پر برازیل 21 کروڑ ، ساتویں نمبر پر نائیجریا 20 کروڑ، آٹھویں نمبر پر بنگلہ دیش 17 کروڑ، نویں نمبر پر روس 15 کروڑ اور میکسیکو 13 کروڑ آبادی کے ساتھ دسویں نمبر پر ہے۔

الغرض اس وقت پاکستان کی آبادی میں ہر آٹھ سیکنڈ بعد ایک بچہ پیدا ہورہا ہے۔ پاکستان میں پہلی مردم شماری 1961 ءمیں کی گئی تھی۔ پہلی مردم شماری کے حساب سے اس وقت متحدہ پاکستان کی آبادی ساڑھے 7 کروڑ تھی جو مغربی اور مشرقی پاکستان کی مجموعی آبادی تھی لیکن اب پاکستان کی آبادی چھ گناہ بڑھ چکی ہے۔

آبادی بڑھنے کا تناسب

ہمارا آبادی بڑھنے کا تناسب دنیا کے 100 ممالک سے زیادہ ہے، یعنی ہر سال ہماری آبادی میں 2.4 فیصد اضافہ ہو رہا ہے، جو خاصا خطرناک ہے۔ آپ خطے میں موجود دیگر ممالک کا موازنہ کر لیں تو آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ یہاں آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جارہے۔ جیسے افغانستان جیسے پسماندہ ملک میں آبادی بڑھنے کی شرح 2.3 فیصد ، ایران میں 1.4 فیصد، بھارت میں 1 فیصد، بنگلہ دیش میں 1 فیصد، انڈونیشیا میں 1.07 فیصد، سری لنکا میں 0.6 فیصد اور چین میں آبادی بڑھنے کی شرح 0.3 فیصد ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خطے کے ان ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں آبادی کی شرح تقریباً دگنی ہے۔ اگر آبادی میں سالانہ اضافے کی یہی شرح رہی تو وہ دن دور نہیں جب 2030 تک پاکستان آبادی کے لحاظ سے انڈو نیشیا کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہو جائے گا۔

تیس سال میں آبادی دوگنا ہو سکتی ہے

اقوام متحدہ کے مطابق 2050 تک پاکستان کی آبادی 400 ملین تک بڑھ جائے گی جس سے اس کے مسائل دو گنا ہو جائیں گے۔

انسانی ترقی میں پاکستان کا عالمی معیار

اس وقت پاکستان انسانی ترقی کے لحاظ سے 147 ویں درجے پر ہے، جبکہ اس کی 30 فیصد کے قریب آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔ شرح خواندگی اب تک صرف 58 فیصد ہے، جبکہ کئی کے نزدیک یہ بھی زیادہ بتائی جاتی ہے۔ ہر سال آبادی میں ہزاروں بچوں کا اضافہ ہوتا رہا تو پاکستان کے لیے 147 واں نمبر برقرار رکھنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ کثرت آبادی کی وجہ سے اس وقت ملک میں 44 فیصد بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ آبادی کا پانچواں حصہ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے جبکہ تعلیمی سہولیات کے فقدان کے باعث 46 فیصد سے زائد بالغ آبادی نا خواندہ ہے۔

ہمارا ملک 23 کروڑ آبادی کو سہولیات دینے کے قابل نہیں!

یہ بات افسوس کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس وقت آدھی سے زائد آبادی پاکستان پر بوجھ بن چکی ہے ، جو بے دریغ وسائل بھی استعمال کر رہی ہے اور ملکی معیشت پر بوجھ بھی بنی ہوئی ہے۔ اور پھر دنیا میں اتنے کم رقبے پر اتنی زیادہ آبادی والا شاید ہی کوئی ملک ہو گا ، اگر ہے بھی تو اس نے آبادی کو اس قدر کنٹرول کیا ہوا ہے کہ ا ±س کی آبادی بڑھنے کی سالانہ شرح 0.5 فیصد سے بھی کم ہے۔ اس کی مثال آپ پورے یورپ کی لے سکتے ہیں۔

لہٰذا آبادی بڑھنے کی وجہ سے ہمارے خاصے وسائل استعمال ہو رہے ہیں اور ہر گزرتے دن ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کی مثال درج ذیل قدرتی وسائل سے دی جا سکتی ہے۔

قدرتی گیس

صوبہ بلوچستان کے علاقہ سوئی سے 1950ءمیں قدرتی گیس کا ایک بڑا ذخیرہ دریافت ہوا۔ اس وقت کہا گیا کہ آبادی کے نارمل بڑھنے کے لیے یہ گیس 2050 تک ہمارے لیے یہ کافی ہو گی، مگر یہ 2000 ءمیں ہی ختم ہوتی نظر آئی اور مزید ذخائر تلاش کرنا پڑے۔ لہٰذا اب یہ عالم ہے کہ گھریلو صارفین کے لیے بھی یہ گیس پوری نہیں ہو رہی اور ہمیں LPG یا LNG کی صورت میں گیس دوسرے ممالک سے درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔ جس سے کثیر زرمبادلہ ملک سے باہر جا رہا ہے۔ ایسا اس لیے ہوا ہے کہ جس رفتار سے ہماری آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔ ہم نے اسے زیادہ خرچ کر لیا ہے۔

  زیر زمین پانی کی کم ہوتی سطح

پاکستان میں بڑھتی ہوئی بے ہنگم اور بے قابو آبادی ملکی وسائل بالخصوص محدود قدرتی وسائل پر سخت دباو ¿ ڈال رہی ہے۔ یہ صورت حال مستقبل قریب میں بحران کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں پانی کے ذخائر پر بڑھتا ہوا بو جھ ملک کو جلد ایک پریشان کن صورت حال سے دوچار کر سکتا ہے۔ 1981 تک ہمارے ہاں پانی وافر مقدار میں مہیا تھا اور فی کس دستیابی 2.123 مکعب میٹر تھی۔ 2017 کی مردم شماری سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب پانی کی فی کس دستیابی انتہائی کمی کا شکار ہوکر 0.861 مکعب میٹر فی کس کی سطح پر آ گئی ہے۔ یا اسے یوں کہہ لیں کہ 1951ء کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں فی کس 5300 مکعب میٹر پانی دستیاب تھا جو اس وقت 1000 کیوبک میٹر سے کم رہ گیا ہے۔ یعنی پانی کی سطح بہت زیادہ نیچے چلی گئی ہے، جو پانی ہمیں پہلے 60 فٹ پر میسر تھا ، آج وہ 400 فٹ پر بھی نہیں مل رہا۔ ہمارا لیول آف واٹر اس لیے نیچے جا رہا ہے، کیوں کہ ہم پانی کا استعمال زیادہ کر رہے ہیں، اور وہ پانی جو قدرتی طور پر زمین کے نیچے جا رہا ہے یا بن رہا ہے وہ بہت کم ہے، اور ماہرین کے مطابق اگر یہی رفتار رہی تو ایک دن زیر زمین پانی ختم ہو جائے گا۔ لہٰذا اگر اس بڑھتے ہوئے سیلاب کے آگے بند نہ باندھا گیا تو بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ پانی کی فی کس دستیابی میں کمی کا یہ مسئلہ عنقریب مزید سنگین صورت اختیار کر سکتا ہے۔ لہٰذا اس حقیقت سے بھی انکا ممکن نہیں کہ زیادہ آبادی کے لحاظ سے کہیں بھی شہری خدمات پہنچانا مشکل ہو جاتاہے۔ مثال کے طور پر پانی یا سیوریج کی ایک کلومیٹر پائپ لائن سے پہلے سو گھروں میں پانی کی ترسیل ہوتی تھی آبادی بڑھنے سے اسی پائپ لائن پر ایک ہزار گھروں کو پانی پہنچانے کا بوجھ پڑ گیا ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین