Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

دونوں ترمیمی بل قانون بن چکے، وفاقی وزیر قانون، صدر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتے، وزیراطلاعات

Published

on

نگراں وزیرقانون احمد عرفان اسلم نے نگراں وزیراطلاعات مرتضیٰ سولنگی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ 27 جولائی کو آرمی ایکٹ ترمیمی بل سینیٹ سے پاس ہوا اور 31 جولائی کو قومی اسمبلی نے اس کی منظوری دی، جس کے بعد دو اگست کو ایوان صدر کو موصول ہوا۔

نگراں وزیرقانون نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل یکم اگست کو قومی اسمبلی نے پاس کیا اور پھر سینیٹ نے کچھ آبزرویشن کے ساتھ اسے دوبارہ قومی اسمبلی بھیجا جسے 7 اگست کو دوبارہ پاس کر کے صدر کو بھیج دیا جو انھیں 8 اگست کو موصول ہوا۔

احمد عرفان اسلم نے کہا کہ صدرمملکت کے پاس دس دن کا عرصہ موجود تھا کہ وہ یا ان بلز کو منظور کرتے یا پھر آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت اپنی آبزرویشن کے ساتھ دوبارہ ان بلز کو پارلیمنٹ بھیج دیتے۔ صدرمملکت کے پاس کوئی تیسرا آپشن موجود نہیں ہے۔

نگراں وزیرقانون نے کہا کہ صدرمملکت کی طرف سے کبھی پہلے ایسا نہیں ہوا کہ صدر کی طرف سے بغیر دستخط یا آبزرویشن کے کسی بل کو واپس بھیجا گیا ہو۔ ان کے مطابق یہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ صدر نے نہ تو ان بلز کی منظوری دی ہے اور ان پر کسی قسم کی کوئی آبزرویشن دی ہے کہ ان پر دوبارہ پارلیمنٹ غور کرتی۔

وزیرقانون نے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ نگراں حکومت کا مینڈیٹ سیاسی نہیں ہے اور وہ صدرمملکت کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے ہیں۔

نگراں وزیرقانون احمد ایک سوال کے جواب میں کہا ہے آئین کے آرٹیکل 75 میں صدرمملکت کو دس دن کی مدت دی گئی ہے۔ اگر وہ کوئی رستہ نہیں لیتے تو پھر یہ خود بخود قانون عمل میں آ جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اب یہ قانون نوٹیفائی ہو گیا ہے، اگر صدرمملکت کوئی آبزرویشن دیتے تو پھر ایسی صورت میں ان بلز کا پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنا ضروری ہوتا۔

نگراں وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ صدر مملکت نے جو اعتراض لگایا ہے کہ ان وجوہات کی بنیاد پر انھوں نے یہ بلز واپس بھجوائے ہیں تو اگر یہی اعتراضات ان بلز پر لگا کر واپس بھیج سکتے تھے، جیسا کہ وہ ماضی میں کرتے رہے ہیں۔ دس دن کا قانونی وقت گزرنے کے بعد صدر نے جو ٹویٹ کیا ہے وہ ان کی مرضی ہے۔

نگراں وزیراطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ حکومت صدر کے دفتر میں جا کر ان کا ریکارڈ قبضے میں نہیں لے سکتے اور ہم قطعاً ایسی کوئی حرکت نہیں کریں گے۔صدر مملکت کا پورا احترام ہے۔

وزیراطلاعات نے کہا کہ ’صدرمملکت اگر دفتر میں آ جائیں تو پھر ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکتی ہے۔ انھیں یہ قانونی تحفظ حاصل ہے۔

نگراں وزیرقانون سے جب اس سوال پر تبصرہ کرنے کا کہا گیا تو انھوں نے بتایا کہ وزیراطلاعات نے جو کہا ہے انھیں اس سے اتفاق ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین