Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

منی ایکسچینج مارکیٹ میں افراتفری، لین دین بند، غیرملکی کرنسی کے گاہک دربدر

Published

on

امریکا کے سفر کے لیے لاہور کی رہائشی مسز منزہ کلیم کو ڈالرز کی ضرورت تھی اور وہ منی ایکسچینجز کے چکر لگا رہی تھیں لیکن انہیں کہیں سے بھی ڈالرز نہیں مل رہے تھے، منی ایکسچینجز نے ایف آئی اے کے کریک ڈاؤن کے بعد کام ہی بند کر رکھا ہے، جہاں کہیں ایف آئی اہلکار چکر لگاتے ہیں، منی ایکسچینجز کا رکا کام شروع ہو جاتا ہے، مسز منزہ کلیم کو بھی مال روڈ پر منی ایکسچینج دفاتر میں ایف آئی اے اہلکاروں کی اس مداخلت سے ڈالرز مل گئے اور انہوں نے سکھ کا سانس لیا۔

ایف آئی اے کے کریک ڈاؤن کے بعد ڈالر کا ریٹ تو نیچے آیا ہے لیکن اب ڈالرز سمیت کوئی بھی غیرملکی کرنسی خریدنا اور بیچنا مشکل ہو گیا۔ ایسی ہی صورت حال کا سامنا محمد طارق اخلاق کو کرنا پڑا، جو انگلینڈ جانا چاہتے ہیں، دو روز پائونڈز کی خریداری کے لیے مارے مارے پھر رہے تھے ، انگلینڈ کے ویزہ کے حساب سے ان کو 3 ہزار سے زائد پائونڈ خریدنے کی اجازت تھی مگر کوئی منی ایکسچینج انہیں برطانوی پاؤنڈز بیچنے کو تیار نہیں تھی، ڈیفنس میں ایف آئی اے کی چیکنگ کے دوران ایف آئی اے حکام نے ان کو پاؤنڈز دلوائے۔

منی ایکسچینجز اور گاہکوں کے حالات مال روڈ، شالیمار لنک روڈ اور ڈیفنس میں ایک سے نظر آئے،تمام مقامات پر فارن ایکسچینج کے دفاتر کھلے تھے لیکن کام ہوتا دکھائی نہیں دیا، اکا دکا گاہک مایوسی کے عالم میں کھڑے معلومات لیتے دکھائی دیئے۔

اسی دوران یہ معلوم ہوا کہ ایف آئی اے لاہور نے مختلف مقامات پر چیکنگ کے دوران ڈیفنس میں منی چینجرز کا ریکارڈ قبضہ میں لے لیا۔

پرانی ڈیوٹی فری پر موجود دوکانوں میں سے اکثر منی چینجرز کے دفاتر میں کام بند نظر آیا اور انہوں نے نہ صرف ڈالر بیچنے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی بلکہ ڈالر کی خریداری میں بھی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔

منی ایکسچینجز پر موجود لوگوں سے جب اس بارے میں بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ڈالرز خریداری مہنگے داموں کر رکھی ہے اور انہیں نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ایک ڈالر کے پہیچھے کم از کم نقصان 9روپے سے زائد کا نقصان ہو رہا ہے اسی وجہ سے ڈالر مارکیٹ میں کم نظر آرہا ہے، یہی حساب دیگر کرنسیوں کا ہور ہا ہے اور مارکیٹ میں پریشانی موجود ہے کہ اتنا بڑا نقصان کیسے پورا کیا جائے گا۔

سٹے باز اور بلیک میں کام کرنے والے بھی مارکیٹ سے غائب ہیں، اس حوالے سے مارکیٹ کے ایک تاجر کا کہنا تھا کہ یہ سٹے باز اور بلیک کا کام کرنے والے ہمارے اندر ہی موجود ہیں، انہیں انویسٹر کہا جاتا ہے، ہم انویسٹرز کو قائل کرے ہیں، ان کی رقم لگاتے ہیں اور منافع کماتے ہیں۔

اس تاجر نے کہا کہ ڈالر 178 سے 180 تک تھا پھر اچانک بڑھتا ہوا 230 اور 276 اور پھر اچانک 320 تک پہنچ گیا یوں انویسٹرز کو فائدہ پہنچایا گیا تھا اور اربوں روپے کمائے گئے اور اسی طرح اب کہا جارہا ہے کہ بلیک مارکیٹ والے تھے، یہ سب جھوٹ ہے۔ منی ایکسچینج خود ان میں ملوث ہیں، ابھی مارکیٹ میں افراتفری ہے، جلد دور ہو جائے گی۔

منی ایکسچینج کا کام رکنے سے عام آدمی دربدر ہے، کسی نے بیرون ملک جانا ہے تو کسی نے بیرون ملک ادائیگی کرنی ہے اور کوئی اپنے بچوں کی ٹیوشن فیس کے لیے پریشان ہے، ڈالر کا ریٹ گرنے پر خوش بھی تھے لیکن اب ڈالرز نہ ملنے پر ایک الگ طرح کی پریشانی پائی جاتی ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین