Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

چین۔وسط ایشیاسربراہ کانفرنس، بیجنگ ماسکو کے پچھواڑے میں کیاکررہاہے؟

Published

on

وسط ایشیائی ریاستوں میں روس کے کمزور پڑتے اثر و رسوخ کے بعد چین خلا پر کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور چین کے صدر شی جن پنگ اس ہفتے بیجنگ میں وسط ایشیائی ریاستوں کے سربراہوں کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان آج بینجنگ میں سربراہ اجلاس کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔

سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد جب سے چین سے ان ریاستوں کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کئے ہیں، اس کے بعد  وسط ایشائی ملکوں کے سربراہوں اور چین کی پہلی سربراہ کانفرنس ہے، یہ کانفرنس ایسے ماحول میں ہو رہی ہے جب سنٹرل ایشیا یوکرین جنگ کے باعث پیدا ہونے والے معاشی بحران کے اثرات کا شکار ہے۔

چین کی میزبانی میں اس سال ہونے والا یہ بڑا سفارتی ایونٹ ہے،یہ دو روزہ ایونٹ خطے میں چین کے اثر و رسوخ کو بڑھانے میں مددگار ہو سکتا ہے، کیونکہ اس خطے پر مضبوط اثرات رکھنے والا روس یوکرین جنگ اور اس کے مضمرات سے نمٹنے میں مصروف ہے۔

خطے کے امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ اس سربراہ کانفرنس کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ یوکرین جنگ کی وجہ خطے کے ساتھ روس کی مستقبل کی وابستگی غیریقینی حالات سے دوچار ہے۔

وسط ایشیا ہمیشہ سے روس کا پچھواڑہ تصور ہوتا آیا ہے، اب چین خطے میں اپنا اثر و نفوذ بڑھا رہا ہے،چین اور وسط ایشیا تعلقات کے لیے نئی خواہشیں اور جہتیں نظر آ رہی ہیں جو اس سے پہلے موجود نہیں تھیں۔

چین کا دورہ کرنے والے رہنماؤں میں قازقستان کے صدر قاسم جومارت تکایف، کرغستان کے سربراہ صدر جباروف، تاجکستان کے صدر امام علی رحمان، ترکمانستان کے صدر سردار بردی محمدوف اور ازبکستان کے صدر شوکت مرزایوف شامل ہیں۔

چین۔ وسط ایشیا سربراہ کانفرنس ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب جی سیون سربراہ کانفرنس جاپان کے شہر ہیروشیما میں بلائی گئی ہے، جی سیون اجلاس میں امریکا، جاپان، جرمنی، برطانیہ، فرانس، کینیڈا اور اٹلی روس کے خلاف جنگ میں یوکرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں گے۔

چین۔ وسط ایشیا سربراہ کانفرنس کے ذریعے چین خطے میں استحکام قائم رکھنے والی طاقت کے تاثر کو پختہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اور یوکرین جنگ میں ثالثی کے ذریعے امن کی طاقت کے طور پر پہچانے جانے کا خواہاں ہے،اس سب کے باوجود چین روس کے ساتھ تعلقات کو بھی مضبوط کرنے کا عزم رکھتا ہے۔

چین وسط ایشیائی ریاستوں کو بین الاقوامی فورمز بشمول اقوام متحدہ پر اہم اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے،چین اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے اور افغانستان جیسے ملکوں سے سکیورٹی خطرات سے بفر کے طور پر بھی ان ریاستوں کو اہم سمجھتا ہے۔

اس سربراہ کانفرنس میں صدر شی جن پنگ دورے پر آئے سربراہان حکومت و ریاست کو کئی طویل مدتی معاہدوں کی تجاویز پیش کریں گے،اقتصادی تعاون کے نئے وعدے کئے جائیں گے۔

خطے کے امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یوکرین جنگ نے روس اور وسط ایشیا کے درمیان رابطوں کو کمزور کیا ہے، خصوصا تجارت، ٹرانپورٹ، ٹرانزٹ، سرمایہ کاری کے شعبوں میں روابط میں کمی آئی ہے،وسط ایشیائی ریاستوں کے مفاد میں ہے کہ وہ روس کے متبادل کے طور پر چین کا تعاون حاصل کریں۔

یوکرین جنگ کے بعد وسط ایشیائی ریاستوں سے تعلقات بڑھانے کے لیے یورپی یونین بھی متحرک ہے اور کئی ملکوں کے اعلیٰ سطح کے حکام نے ان ریاستوں کے دورے کئے ہیں،امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے قازقستان اور ازبکستان کا اس سال دورہ کیا،یورپی کونسل کے صدر نے اکتوبر 2022 میں ان ملکوں کے دورے کئے۔

تاہم چین کا اس خطے میں اثر و رسوخ یورپ کی نسبت زیادہ ہے اور چین نے دس سال پہلے ان ملکوں میں اپنا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ شروع کر کے اثر و رسوخ کو بڑھانا شروع کیا تھا۔

دو روزہ سکیورٹی کانفرنس میں چین۔ وسط ایشیا سکیورٹی تعاون بڑھانے کا معاملہ بھی زیر بحث آئے گا،چین کو سنکیانگ میں بدامنی کے خدشات کا سامنا ہے اور اس بدامنی کو روکنے کے لیے وسط ایشیا کا تعاون اہم ہے۔

چین شاید وسط ایشیا کی سکیورٹی روس کی طرح اپنے ذمہ لینے میں دلچسپی نہ دکھائے لیکن دہشتگردی کے خاتمہ سمیت دیگر سکیورٹی امور میں تعاون بڑھانا چین کے ایجنڈے کا حصہ ہے،کیونکہ چین کئی وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ مشترکہ بارڈر رکھتا ہے۔

اس سربراہ کانفرنس میں یوکرین جنگ اور روس کے لیے چین کی حمایت بھی اہم موضوع ہوگا، بیجنگ ان دنوں اس تاثر کو ختم کرنے کی کوشش میں ہے کہ وہ یوکرین جنگ میں روس کو کسی قسم کی مدد فراہم کر رہا ہے،چین نے امن بات چیت کے لیے حال ہی میں یوریشن امور پر نمائندہ خصوصی لی ہوئی کو یوکرین، روس اور کئی یورپی ملکوں کے دورے پر بھیجا۔

روس، یوکرین جنگ میں ثالثی کوششوں پر چین کے موقف کی حمایت حاصل کرنے کے لیے یہ سربراہ کانفرنس اہم موقع ہے۔ان ملکوں کی طرف سے چین کی کوششوں اور موقف کی حمایت اہم ہوگی۔

وسط ایشیائی ملکوں اور چین کا یوکرین جنگ پر موقف تقریبا یکساں ہے، ان ملکوں نے بھی روس کی مذمت سے گریز کیا اور عالمی فورمز پر روس کے خلاف قراردادوں پر ووٹنگ کے دوران غیر حاضر رہنے کو مناسب جانا تھا۔اس کانفرنس میں وسط ایشیائی ممالک چین کے ترقیاتی منصوبوں پر دستخط کر سکتے ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین