چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا
پاکستان سمیت دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانی ارض پاک مملکت خدا داد پاکستان کا 76 ویں یوم آزادی منا رہے ہیں۔پاکستان 14 اگست 1947 کو ایک آزاد مسلم ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔قیام پاکستان کے لیے جہاں سیاسی جدوجہد تاریخ میں قلم بند ہے وہیں ہزاروں افراد کا خون بھی ارض پاک کی بنیادوں میں شامل ہے ۔
1947ء میں مسلمانوں کی جذبہٗ دینے والی آئینی تشکیلات کی کمی، مذہبی تنازعات کی تیزی، اقتصادی انصاف کی عدم موجودگی اور ہندو براہمنی کی دہلی سلطنت کی پالیسیوں کے باعث، مسلمانوں میں خود مختار ریاست کی تشکیل کی آرزو پیدا ہوئی۔
مسلمانان برصغیر نے انگریز سامراج کی سازشوں اور کانگرس کی چالبازیوں کے باوجود اپنی بے مثال جدوجہد اور لازوال قربانیوں کے ذریعے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت، جس کا خواب ڈاکٹر محمد اقبال نے دیکھا تھا، اس کی تعبیرپانا بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی قسمت میں لکھا تھا۔
قیام پاکستان ایک دن سال یا صدی تک محدود نہیں بلکہ اس کا تعلق وہاں تک جاتا ہے جب اس خطہ ارض پر اسلام کی روشنی پہنچی ۔ہندوستان میں مسلمانوں کی باقاعدہ حکومت کا آغاز محمد بن قاسم کی آمد سے ہوا۔
چوننکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس سے متاثر ہو کر مقامی لوگ جوق در جوق اس میں داخل ہوتے گئے۔وسط ایشیا اور افغانستان سے مسلمان فاتحین وقتا فوقتا ہندوستان آتے رہے ۔مغلیہ سلطنت بڑی وسیع تھی۔ جو تقریبا سارے برصغیر پر پھیلی ہوئی تھی ۔جب مغلیہ سلطنت کمزور ہوگئی تو انگریز ہندوستان پر اپنی قدم جماتے گئے- یہاں تک کہ 1857ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی ناکامی کے بعد انگریزوں کا ہندوستان پر قبضہ ہوگیا۔
بیسویں صدی کے ابتدائی عشرے میں مسلمانوں میں سیاسی بیداری کے دور کا آغاز ہوتا ہے ۔پھر 1906میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ سرسید احمد خاں،مولانا محمد علی جوہر، علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح جیسے لیڈروں نے مسلمان قوم کے اندر ایک نئی روح بیدار کی ۔بالآخر ایک قومی تحریک نے جنم لیا جس کو تحریک پاکستان کا نام دیا گیا ۔جس سے مراد یہ تھا کہ مسلمان چونکہ ایک الگ قوم ہیں اس لئے ان کے لئے ان کا اپنا ایک الگ اور آزاد ملک ہونا چاہیے جسے وہ پاکستان کہتے ہیں۔
ہندوستان میں برطانوی سلطنت کو قائم رکھنے میں مرکزی سول سروسز، جن میں انڈین سول سروس سب سے زیادہ اہم تھی، کا بڑا ہاتھ تھا۔ انڈین سول سروس کے ارکان نہ صرف اضلاع کے انصرام و انتظام کو سنبھالے ہوئے تھے بلکہ صوبائی اور مرکزی سیکرٹریٹ کو بھی چلاتے تھے ۔اس کے علاوہ گورنر جنرل کی کونسل میں اہم قلمدان اور صوبوں کی گورنریاں بالخصوص مغربی پاکستان کے صوبہ جات ان کے تصرف میں تھیں۔
اس نظام کی بنیادی خصوصیت مرکزی وحدانی طرز حکومت تھا جو کہ مختلف انواع کے علاقوں ، برادریوں اور قبائل وغیرہ پر مسلط کیا گیا تھا ۔یہ نوکر شاہی غیرجانبدار تھی اور اس کا چناؤ زیادہ تر قابلیت اور اہلیت پر تھا ۔اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ تھی کہ اس کے علاقہ میں برطانوی مفادات کا تحفظ کیا جائے تا کہ برطانیہ مخالف عناصر کے اثر و رسوخ کو کمزور کردیا جائے اور قدامت پسند عناصر کو مضبوط کیا جائے۔
یہ کسی حد تک اس بات کی بھی وضاحت کرتی ہے کہ مغربی پاکستان کے نان ریگولیشن صوبہ جات میں سیاسی شعور کبھی بھی اتنا گہرا نہ ہو کہ جتنا مشرقی پاکستان میں تھا جس میں ریگولیشن صوبہ جات کا نظام رائج تھا۔ حکومت برطانیہ کے 1917 کے مشہور اعلان جس میں ذمہ دار حکومت کو بتدریج قائم کرنے کا اعادہ کیا گیا تھا۔ اس کے اس ارادے کا اظہارہوا کہ وہ ہندوستان میں نمائندہ اداروں کے قیام کے خواہاں ہیں مگر یہ بات بھی عیاں تھی کہ شروع ہی سے برطانیہ اور ہندوستان میں باہمی اعتماد اور مفاہمت کا نہ ہونا پارلیمانی اداروں کی نشوونما اور پرامن انتقال اقتدار کے راستے میں رکاوٹ تھا۔1942 ء میں گاندھی نے وائسرائے ہند لارڈ لنلتھگو کے سامنے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کو نہیں پڑھا تھا اگر اس نے یہ پڑھ لیا ہوتا تو ہندوستانی تاریخ کا راستہ کچھ اور ہوتا۔
بہرحال اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قائداعظم نے تحریک پاکستان کو بہت تھوڑے عرصہ میں منظم کر کے دنیا کو بتا دیا کہ وہ نہ صرف قانون ساز اسمبلیوں میں سیاسی جنگیں لڑ سکتے ہیں بلکہ وہ عوام کے جم غفیر کو بھی منظم کر سکتے ہیں۔
قوموں کی زندگی میں قومی دن اپنے پس منظر کو اجاگر کرنے،ان کی اہمیت کو واضح کرنے اور نئی نسل کو ماضی کے اہم سنگ ہائے میل کی طرف متوجہ کرنے کے لئے نہایت مفید ہوتے ہیں ۔آہستہ آہستہ ایسے ایام تہواروں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ۔
آج آزادی وطن کے 74 سال مکمل ہونے پر جشن منانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھیں کہ برصغیر کے مسلمان قائدین نے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیوں کیا تھا۔
تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کی مندرجہ ذیل بنیادی وجوہات تھیں۔صدیوں ہندوستان کی سرزمین پر مسلمانوں کی حکومت رہی جہاں ہندو جو برصغیر میں اکثریت میں رہتے تھے ایک طویل عرصہ تک مسلمان بادشاہوں کی رعایا رہے تھے۔ انگریزوں نےچونکہ حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی اس لیے زیادہ ردعمل کی توقع بھی ان کی طرف سے ہی تھی۔مسلمانوں کو صرف حکومت سے ہی محروم نہیں کیا گیا بلکہ مجموعی طور پر وسائل زندگی کے اعتبار سے بھی بہت کمزور کر دیا گیا تھا۔
مغرب سے آنے والا جمہوریت کا تصور کانگریس کو خوب بھاتا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ برطانوی تصور جمہوریت کی مدد سے وہ برصغیر پر اپنی حکومت قائم کرسکتے ہیں۔ مسلمان محسوس کرتے تھے کہ انہیں معاشی اور سماجی طور پر جان بوجھ کر پسماندہ رکھا گیا ہے۔
اس وقت ایک اندازے کے مطابق ہندوستان میں تقریبا 40 فیصد مسلمان آباد تھے ۔مسلمانوں کو یہ بھی احساس تھا کہ ہندو اپنی اجتماعی اکثریت اور مذہبی تصورات کی بنیاد پر مسلمانوں سے تعصب برتتے ہیں اور انہیں بہت سے مقامات پر اپنے مذہب پر آزادی سے عمل کرنے میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں ۔
یہی وہ اہم وجوہات ہیں جس کی بنیاد پر ایک آزاد ریاست کا مطالبہ وجود میں آیا ان وجوہات میں سب سے اہم وجہ مذہبی آزادی کا نہ ہونا تھا ۔مذہب ہی کی بنیاد پر قائداعظم نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو اپنی طرف توجہ فرمایااور ان الفاظ میں خطاب کیا؛
“ہم نے پاکستان کا مطالبہ محض زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں پر ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں”
مارچ 1941ء میں قائداعظم نے ایک تقریر میں کہاکہ” ہم جس جدوجہد میں مصروف ہیں وہ صرف مادی فائدوں کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ جدوجہد فی الحقیقت مسلم قوم کی روح کی بقاء کے لیے ہے”
نومبر 1945ء میں انہوں نے کہا؛
” مسلمان پاکستان کا مطالبہ اس لیے کر رہے ہیں کہ وہ اپنی ضابطہ حیات اپنی روایات اور اسلامی قوانین کے مطابق حکومت کر سکیں “
ملک خداداد پاکستان کا پس منظرروز روشن کی طرح عیاں ہیں پھر آخر کیا وجہ ہے کہ ایک عشرے سے ملک خداداد پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ ثابت کرنے کی تابڑ توڑکوشش کی جا رہی ہےاور یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ملک پاکستان کا کوئی پس منظر نہیں بلکہ قائداعظم کے اس عظیم نظریے اور مقاصد کو تقویت پہنچانے کے بجائے سوچی سمجھی سازش کے تحت کنفیوزن پیدا کیا جا رہا ہے۔
اسلامی تہذیب و تمدن بلکہ اسلامی تشخص کا مذاق اڑایا جا رہا ہے اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ تحریک آزادی انگریز کے خلاف تھی، اسلامی ریاست کے لئے نہیں تھی۔جبکہ بانئ پاکستان فرماتے تھے کہ پاکستان کا مطلب صرف آزادی ہی نہیں بلکہ اس کا مطلب اسلامی نظریہ بھی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ملحدین اور مذہب فراموش کی ایک جماعت بین الاقوامی سازش کے تحت ملک خداداد سے دین کو ختم کرنے کے منصوبے پر شدت سے عمل پیرا ہے۔
انتہائی افسوس کےساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ وطن عزیز میں اسلام کے سیاسی و معاشی نظام کو نظرانداز کیا جارہا ہے بلکہ قائد اعظم کے پاکستان پر ان موقع پرست سرکاری ملازمین اور نوکر شاہی نے غاصبانہ قبضہ کرلیا جو کبھی تحریک اور قیام پاکستان کے حق میں نہیں تھے۔
60 لاکھ سے زائد افراد نے اپنی جانوں کو صرف اس لئے قربان کیا تھا کہ اس ملک خداداد میں اسلامی نظریہ حیات کا وجود ہوگا۔یہ سب افراد مذہب ہی کی بنیاد پر تحریک پاکستان میں شامل ہوئے تھے۔ رب کائنات نے پاکستان کی شکل میں ہمیں ایک اسلامی ریاست عطا کی تاکہ ہم اسلام کے سیاسی و معاشی نظام کو قائم کر سکیں اور دنیا کوایک مدینہ کی ریاست کا نمونہ دکھائیں۔
پاکستان لاکھوں شہیدوں اور ہمارے اسلاف کی امانت ہے۔اس دارالاسلام کو لادینیت اور لسانیت سے پاک کرنا ہر مسلمان اور پاکستانی کی ذمہ داری ہے ۔ہماری عزت اور سلامتی اسی پر مضمر ہے اور یہی قیام پاکستان کا حاصل تھی ۔رب کائنات وطن عزیز کا حامی و ناصر ہو۔ آمین