Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

پولیس افسروں کو گالیاں دینے والا کانسٹیبل شاہد: کوئی اینکر کسی فوجی کو روک کر دکھائے

Published

on

انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کی ایمرجنسی وارڈ کے ایک بیڈ پر کانسٹیبل شاہد عدیل بایاں بازو آنکھوں پر دھرے گہری سانسیں لے رہا تھا، دو باوردی پولیس اہلکار بیڈ کے ساتھ رکھے بینچ پر بیٹھے تھے، دونوں اس کی خبر گیری کے لیے آئے تھے یا پہرے پر متعین تھے، یہ واضح نہیں۔

کانسٹیبل شاہد عدیل وہی ہے جو ان دنوں ایک وائرل ویڈیو کا مرکزی کردار اور ملک بھر میں زیربحث ہے، اس ویڈیو میں وہ اعلیٰ پولیس قیادت کو سڑک پر سرعام گالیاں بکتا دکھائی دیا، سوشل میڈیا کے دباؤ اور ہتک محسوس کرنے پر پولیس قیادت اور تو کچھ نہ کرپائی اسے مینٹل ہسپتال پہنچادیا۔

شاہد عدیل کا معاملہ کیا؟ کیا واقعی ہی ذہنی امراض میں مبتلا اہلکار تھانوں اور فیلڈ پوسٹنگ پر ہیں؟ ان اہلکاروں سے متعلق ماہرین نفسیات کیا کہتے ہیں اور پولیس کا دفتری ضابطہ کیا ہے؟

ان سوالات کے جواب کی جستجو مجھے یہاں تک لائی تھی، شاہد عدیل نے آہٹ پاکر آنکھوں سے بازو ہٹایا اور حیرت سے مجھے دیکھا، میں اسے السلام علیکم کہہ کر اس کی کیفیت کو سمجھنے اور ردعمل جاننے کی کوشش کی، شاہد نے اسی حیرت کے ساتھ جواب میں سرہلادیا۔

شاہد کے قریب بینچ پر بیٹھے اہلکاروں نے میرا تعارف حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن میں کسی بھی بحث میں الجھنے سے بچنے کے لیے ڈی ایم ایس کے کمرے کی جانب بڑھ گیا کیونکہ میرا مقصد ان سے چند سوالات کرنا تھا۔

پولیس کے بیان کئے گئے جھوٹ

ڈی ایم ایس ڈاکٹر طاہرہ سے ملاقات کے بعد شاہد عدیل کے متعلق کئی جھوٹ کھل گئے، شاہد عدیل کے متعلق پہلی اطلاع تو اس ویڈیو کے منظرعام پر آنے کے بعد پولیس کی جانب سے ملی کہ شاہد کے سر پر کچہ آپریشن کے دوران چوٹ لگی، جس کے بعد اس کا دماغی توازن خراب ہوا اور وہ کئی دن سے زیر علاج تھا لیکن وردی پہن کر سڑک پر آ گیا۔

ڈی ایم ایس ڈاکٹر طاہرہ نے بتایا کہ شاہد طویل عرصہ سے ڈپریشن کا شکار اور زیرعلاج ضرور ہے لیکن یہ مرض کسی چوٹ کا نتیجہ نہیں، یہ مرض شدید گرمی اور شدید سردی میں مریض پر اثر انداز ہوتا ہے  یا پھر ادویات کے استعمال میں کوتاہی برتنے پر اس کے اثرات سامنے آتے ہیں اور دو روز قبل بھی ایسا ہی ہوا تھا۔

اس سوال پر کہ یہ مرض کیسے اور کتنے عرصہ میں ٹھیک ہو سکتا ہے ڈاکٹرطاہرہ نے بتایا کہ ایسے امراض کبھی ٹھیک نہیں ہوتے اور مریض کو تمام عمر ادویات کی ضرورت رہتی ہے۔

شاہد عدیل کے ڈپریشن کی وجوہات کے متعلق سوال پر ڈاکٹر طاہرہ نے کہا کہ دماغ پر بوجھ، مسلسل اور جبرا کام، زیادہ سوچنے سے پہلے چڑچڑا پن ظاہر ہوتا ہے پھر دماغ بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔

کتنے اہلکار ذہنی امراض کا شکار ہیں؟

اس ہسپتال میں زیر علاج یا دوا کے لیے کتنے پولیس اہلکار رجوع کرتے ہیں، اس سوال پر ڈاکٹر طاہرہ نے معذرت کر لی اور کہا کہ تعداد ان کے علم میں نہیں اور وہ مریضوں کی معلومات شیئر نہیں کر سکتیں۔

ڈاکٹرطاہرہ سے پولیس اہلکاروں اور افسروں کی ذہنی صحت سے متعلق بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ ٹریفک وارڈن اور  پولیس سب انسپکٹر کی بھرتی سے پہلے سائیکالوجی ٹیسٹ اسی ہسپتال میں ہوتا ہے، کچھ عرصہ قبل ٹریفک وارڈنز کو ذہنی  صحت پر لیکچر بھی دیئے گئے تھے جس کے اچھے اثرات مرتب ہوئے لیکن یہ اندازہ بھی ہوا کہ حالات کار کی وجہ سے نوجوان چڑچڑے پن کی طرف جا رہے ہیں۔

آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے خود کہا تھا کہ کچھ اہلکار نفسیاتی اور ذہنی امراض کا شکار ہیں لیکن انہوں نے تعداد نہیں بتائی تھی۔

 

تھانوں اور سڑکوں پر عوام کے ساتھ پولیس کے آئے روز کے جھگڑوں کے پیچھے یہی مسائل کارفرما ہو سکتے ہیں، اس لیے تعداد جاننا ضروری ہے لیکن ریکارڈ پر بات کرنے کو کوئی بھی تیار نہیں۔

پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کے ایک اہلکار نے نام اور شناخت خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ کم از کم 35 اہلکار اور دو تین افسر علاج کے لیے یہاں آتے رہتے ہیں لیکن ان کے نام اور عہدے نہیں بتائے جا سکتے۔

کیا ذہنی امراض میں مبتلا پولیس اہلکار ملازمت کے اہل ہیں؟

پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کے سینئر کنسلٹنٹ ڈاکٹر نعمان سے یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم کسی کا روزگار چھیننے کی طرف نہیں جا سکتے تاہم اہلکاروں کی ذہنی صحت کا جائزہ لے کر یہ سفارش کی جا سکتی ہے کہ ان سے کس قسم کا کام لیا جا سکتا ہے، اس کی مثال یوں سمجھیں کہ اگر کسی اہلکار کی ذہنی صحت زیادہ اچھی نہیں تو اسے اسلحہ کے استعمال سے روکنے کی سفارش کی جا سکتی ہے، تھانہ یا فیلڈ پوسٹنگ کی بجائے دفتری کام کی سفارش کی جا سکتی ہے۔

اس سوال پر کہ پولیس اہلکاروں میں ذہنی امراض کے کیا اسباب ہو سکتے ہیں؟ ڈاکٹر نعمان نے کہا کہ حالات کار کسی بھی انسان پر اثرات مرتب کرتے ہیں، ٹریفک وارڈنز سردی، گرمی  اور سخت موسمی حالات میں سڑکوں پر 8،8 گھنٹے کھڑے رکھے جاتے ہیں، ان کے اوقات کار کم کئے جا سکتے ہیں، اس کے علاوہ تھانہ ڈیوٹی میں اوقات کار متعین ہی نہیں، خود طب کے شعبہ میں ہاؤس جاب کرنے والئے پورا مہینہ کسی ہفتہ وار چھٹی کے بغیر کام کرتے ہیں، سینئر ڈاکٹر بھی دیر رات گئے تک خدمت انجام دیتے ہیں، اس لیے کسی ایک شعبہ کو ٹارگٹ نہیں کیا جا سکتا بلکہ مجموعی طور پر حالات کار بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی شخص کی ذہنی صحت اگر متاثر ہو تو اس کے اہلخانہ بھی متاثر ہوتے ہیں۔

اینکر کسی فوجی کو سڑک پر زبردستی روک کر دکھائیں

پولیس اہلکاروں کے ذہنی اور نفسیاتی مسائل کے حوالے سے ریٹائرڈ ایڈیشنل آئی جی شاہد حنیف سے بات کی گئی تو انہوں نے شاہد عدیل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ بیمار تھا، بیماری کی حالت میں کچھ بھی کہہ گیا لیکن اس اینکر سے متعلق کیا کہیں گے جس نے اسے بلااجازت روکا؟ اس سے زبردستی بات کرنے کی کوشش کی؟

ایڈیشنل آئی جی ریٹائرڈ شاہد حنیف

شاہد حنیف نے اس معاملے پر سخت برہم محسوس ہوئے، انہوں نے کہا کہ یہ تو پولیس والا تھا، کوئی اینکر کسی فوجی کو یوں سڑک پر روک کر دکھائے تو مانوں، ایک بیمار شخص کا مذاق اڑیا جا رہا ہے۔ ایک بیمار سے ہمدردی کی بجائے اس پر پھبتیاں کسی جا رہی ہیں۔

اس سوال پر کہ پولیس اہلکار چڑچڑے پن کا شکار کیوں ہوجاتے ہیں؟ شاہد حنیف نے کہا کہ ماہرین نفسیات ایک عرصہ سے سفارش کر رہے ہیں اوقات کار کم کئے جائیں، پولیس اہلکار کا کوئی ڈیوٹی وقت مقرر نہیں، ایک بار ڈیوٹی پر آ جائے تو کئی کئی دن واپس گھر نہیں جا پاتا،ایک ایس ایچ او کی ڈیوٹی دیکھیں، کیا یہ انصاف ہے؟ اس پر بھی تو آواز اٹھائی جائے۔

ذہنی امراض میں مبتلا اہلکاروں کو ملازمت پر برقرار رکھنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ کسی کو صرف اس لئے ملازمت سے نکال دیا جائے کہ وہ دوران ملازمت حالات اور اوقات کار کی وجہ سے مرض کا شکار ہو گیا ہے، یہ انصاف نہیں البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ اسے دفتری ڈیوٹی دے دی جائے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین