Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

سیاسی اور عدالتی بحران سے نکلنے کی درون خانہ کوششیں، ایک یوٹرن، ایک رعایت اور فیس سیونگ،پھر سب نارمل

Published

on

انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن مذاکرات میں تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں واپسی اور الیکشن تاریخ آگے بڑھانے کے لیے آئینی ترمیم کی تجاویز سامنے آئیں۔

شاہ محمود قریشی نے مذاکرات کے بعد کہا کہ تین اسمبلیوں کی تحلیل اور ایک ہی دن الیکشن کی تاریخ پر اتفاق رائے نہیں ہوا اس لیے پی ٹی آئی سپریم  کورٹ جا کر مذاکرات کی ناکامی کی رپورٹ دے گی۔

اسحاق ڈار نے یکسر مختلف انداز میں بات کی اور مذاکرات کی ناکامی کا کوئی تاثر دینے کی بجائے پیشرفت کی بات کی اور کہا کہ  ملک میں الیکشن  ایک ہی دن ہونے پر اتفاق بڑی کامیابی ہے۔ اگلی نشست میں مزید پیشرفت ہوجائے گی۔

دونوں جماعتوں کے وفود کے سربراہوں کی دو مختلف باتوں سے بظاہر ناکامی کا تاثر ملتا ہے لیکن اسے غور سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے تو لگتا ہے کہ درون خانہ معاملات کو سمیٹنے  کی کوششیں آگے بڑھ رہی ہیں اگرچہ رفتار سست ہے۔

تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں واپسی اور نگران حکومتوں کی تشکیل کی تجاویز کو سامنے رکھا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ معاملات کو سمیٹنے کا ایک روڈ میپ بن رہا ہے۔

جہاں تک شاہ محمود قریشی کے بیان کا تعلق ہے تو یہ دباؤ بنائے رکھنے کا حربہ ہے ، شاہ محمود قریشی کی طرف سے  سپریم کورٹ میں رپورٹ داخل کرنے کا بیان اس تاثر کو مضبوط کر رہا ہے۔

حکومت کی پالیسی دو شاخہ ہے، ایک طرف تو اسحاق ڈار ہیں جو بہت تحمل کے ساتھ مذاکرات آگے بڑھانے کی بات کر رہے ہیں جبکہ پارلیمنٹ کے اندر وزیر دفاع خواجہ آصف،جاوید لطیف، نور عالم خان، شازیہ مری اور دیگر کے خطابات حکومت پر موجود اداہ جاتی اوراپوزیشن کا دباؤ ہٹانے کی حکمت عملی ہیں۔

وزیر دفاع کی طرف سے یہ مطالبہ کہ سپریم کورٹ سے بھی اس کارروائی کا ریکارڈ مانگا جائے اور عدلیہ نے سب سے زیادہ آئین کا قتل کیا، جیسا بیان اداروں کو پارلیمانی اختیارات اور حدود سے باہر دھکیلنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

قائمہ کمیٹی کے چیئرمین نورعالم خان کی طرف سے رجسٹرار سپریم کورٹ کو سمن کرنے کی بات بھی پارلیمان کی بالادستی کا تاثر دے کر   دراصل پیش قدمی عدلیہ کو بیک فٹ پر لے جانے کی کوشش ہے۔

ماضی میں بھی جب جب عدلیہ نے سیاست دانوں اور پارلیمان کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی تو ججز کی تنخواہوں اور مراعات، عدلیہ کے اخراجات کا ریکارڈ طلب کرنے کی بات سامنے آئی، ماضی میں  یہ حربہ کسی حد تک کارگر بھی رہا، عدلیہ نے بظاہر دم خم دکھانے کی کوشش کی لیکن اندرون خانہ معاملات طے پا جاتے رہے اور   ججز کو فیس سیونگ دے کر انہیں پیچھے دھکیل دیا جاتا رہا ہے، اس بار یہ حکمت عملی  کس قدر مؤثر ثابت ہو گی ابھی تک یہ دیکھنا باقی ہے۔

اسحاق ڈار کا یہ کہنا کہ الیکشن ایک ہی وقت پر کرائے جانے پر اتفاق ہوا ہے ، اہم ہے، اس کا مطلب ہے پی ٹی آئی کے موقف میں لچک آئی ہے جو درون خانہ کوششوں کے رنگ لانے کی نشانی ہے۔

پنجاب میں پہلے الیکشن پر زور دینے والی جماعت کا موقف بدلنا یا  اس میں لچک پیدا ہونا معاملات میں پیشرفت کا ثبوت ہے۔اسحاق ڈار کی زبانی ہی قوم کو معلوم ہوا کہ فریقین نے اتفاق کیا ہے کہ  انتخابی نتائج کو تسلیم کیا جائے گا اور دھاندلی کا شور نہیں مچایا جائے گا اس کے علاوہ بجٹ اور  اور آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد ہی  الیکشن کرائے جا سکتے ہیں۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ 14 مئی کو الیکشن کی ضد  سے بھی پی ٹی آئی پیچھے ہٹ گئی ہے۔ بجٹ اور آئی ایم مذاکرات کا مطلب ہے کہ  مئی تو کیا جون میں بھی الیکشن کا کوئی امکان نہیں اور پی ٹی آئی اس بات نہ صرف سمجھتی ہے بلکہ اس سے کسی حد تک متفق بھی ہے۔

قومی اسمبلی واپسی اور نگران سیٹ اپ کی تشکیل پر بات چیت سے یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ پی ٹی آئی ایک  اور یو ٹرن پر پہنچ چکی ہے۔ پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی سے نکلنے کا خمیازہ  بھگتنا پڑا ہے اور کافی نقصان کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ نگران سیٹ اپ میں اس کا بھی حصہ اور مشاورت نہ ہوئی تو نقصان  ناقابل تلافی حد کو چھو جائے گا۔

تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں واپسی کی گنجائش نکالنا حکمران اتحاد کی جانب سے ایک رعایت ہوگی۔جبکہ الیکشن فوری کرانے کے مطالبے سے دستبرداری پی ٹی آئی کی جانب ایک رعایت ہوگی۔

اس طرح سپریم کورٹ کو بھی ایک مشکل صورت حال سے نکلنے کا موقع مل سکتا ہے اور اسے ماضی کی طرح ایک اور فیس سیونگ دے کر دلدل سے نکال لیا جائے گا۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین