پنجاب حکومت نے سابق وزیراعظم عمران خان کو اڈیالہ کی بجائے اٹک جیل میں رکھنے کی وجوہات بیان کرنے کے ساتھ انہیں جیل میں دی گئی سہولیات کی تفصیل بھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کردی۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی اٹک سے اڈیالہ جیل منتقلی سے متعلق درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کی ہے۔
سماعت کے دوران اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب راؤ شوکت عدالت کے سامنے پیش ہوئے ہیں جبکہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے وکیل شیر افضل مروت عدالت کے سامنے پیش ہوئے ہیں۔
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے پوچھا کہ جب ٹرائل کورٹ نے اڈیالہ جیل بھیجا آپ نے اٹک بھیج دیا۔ اڈیالہ جیل سے اٹک جیل منتقلی کا فیصلہ کس کا تھا؟
اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے پنجاب حکومت کی جانب سے اٹک جیل منتقلی کا خط عدالت کے سامنے پیش کر دیا۔
وکیل پنجاب حکومت کی جانب سے خط پڑھا گیا جس میں اٹک جیل منتقلی سے متعلق تفصیلات درج تھیں۔ خط کے متن کے مطابق اڈیالہ جیل حساس نوعیت کی جیل ہے جہاں گنجائش سے زیادہ قیدی موجود ہیں اور زیادہ تر قیدی بم دھماکوں اور دہشتگردی جیسے سنگین مقدمات میں نامزد ہیں۔
خط کے مطابق اس لیے سکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر چیئرمین پی ٹی آئی کو اڈیالہ جیل منتقل نہیں کیا گیا۔
عمران خان کے وکیل شیر افضل نے ان وجوہات کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اگر جیل میں گنجائش سے زیادہ قیدی ہیں تو چیئرمین پی ٹی آئی کے آنے سے کیا فرق پڑ جائے گا؟ پاکستان کی تمام جیلوں میں قیدی جگہ سے زیادہ ہیں۔‘
عمران خان کے وکیل شیر افضل کا کہنا ہے کہ ’عمران خان کو کس کلاس میں رکھنا ہے، سات دن میں یہی فیصلہ نہیں ہو سکا۔یہ کام ابتدائی طور پر ٹرائل کورٹ کے جج کا کام ہوتا ہے۔‘
وکیل پنجاب حکومت کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہم نے پانچ ڈاکٹرز جیل میں ان کے لیے رکھے ہوئے ہیں۔ ڈی ایچ کیو میں پہلے معاملہ بھیجا جاتا ہے پھر بورڈ ہوتا ہے وہ دیکھتا ہے۔‘
وکیل شیر افضل مروت کا کہنا تھا کہ عمران خان کو ان کا اپنا ڈاکٹر چیک کر لے گا تو کیا ہو جائے گا؟ نواز شریف کو اڈیالہ جیل میں ڈاکٹر عدنان روز چیک کرنے آتے تھے، آپ بیشک جیل کا ریکارڈ منگوا لیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ہم قرآن پاک دینا چاہ رہے ہیں کتابیں دینے چاہ رہے ہیں یہ وہ بھی نہیں دینے دے رہے۔ اس پر وکیل پنجاب حکومت کا کہنا تھا کہ وہاں عمران خان کو قرآن اور جائے نماز پہلے ہی دے دی گئی ہے۔
اس پر عمران خان خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ وہ انگلش ورژن استعمال کرتے ہیں ہم نے وہ دینا تھا۔ جس پر وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہم انگلش ورژن بھی پہنچا دیں گے۔
وکیل پنجاب حکومت نے مزید بتایا کہ عمران خان کے لیے ہم نے کھانے کے لیے الگ سے باورچی رکھا ہوا ہے، ان کے الگ برتن رکھے ہوئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ایک میڈیکل آفیسر اور ایک ڈی ایس پی کھانا چیک کرتا ہے پھر چیئرمین پی ٹی آئی کو کھانا دیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ عدالت عمران خان کو جیل میں ملنے والی سہولیات اور ملاقات کے اوقات سے متعلق فیصلہ دے گی۔
انھوں نے کہا کہ ’اگر ایک دو لوگ بھی جا رہے ہیں تو پھر تو کوئی لا اینڈ آرڈر کی صورت حال پیدا نہیں ہوتی، چالیس پچاس لوگ جائیں تو اور بات ہے۔‘