فوجی ہیلی کاپٹروں اور زپ لائن کمانڈوز نے خیبر پختونخوا کے دور افتادہ ضلع آلائی میں ایک ڈولی یعنی دیسی ساختہ کیبل کار میں زمین سے نو سو فٹ کی بلندی پر لگ بھگ 15 گھنٹے سے پھنسے تمام آٹھ افراد کو بحفاظت نکال لیا
پرخطر ریسکیو کا آغاز ہیلی کاپٹر کے ساتھ ہوا جس میں تقریباً 12 گھنٹے بعد ایک بچے کو محفوظ مقام پر لایا گیا، لیکن خراب موسم کی وجہ سے اسے واپس اڈے پر لے جانا پڑا اور رات پڑ گئی۔
اس کے بعد پاک فوج کے سپیشل سروسز کمانڈوز نے ایک چھوٹی ڈولی کو زپ لائن کےٓ طور پر استعمال کرتے ہوئے باقی پھنسے ہوئے لوگوں کو ریسکیو کیا۔
ریسکیو کئے گئے لڑکوں میں سے ایک عطا اللہ شاہ نے اے ایف پی کو بتایا، “میں نے سوچا کہ یہ میرا آخری دن ہے اور میں اب نہیں رہوں گا،خدا نے مجھے دوسری زندگی عطا کی ہے۔
نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے ریسکیورز کو ’قوم کے ہیرو‘ قرار دیا۔انہوں نے ٹویٹر پر لکھا، فوجی، ریسکیو محکموں، ضلعی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کی طرف سے زبردست ٹیم ورک۔
مقامی حکام نے پہلے کہا تھا کہ دو بچوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے متاثرہ ڈولی سے نکالا گیا تھا، لیکن بعد میں فوج نے تصدیق کی کہ اس طرح صرف ایک کو بچایا گیا تھا۔

فوج کے میڈیا ونگ نے ایک بیان میں کہا، انتہائی ہنر مند پائلٹس اور اہلکاروں کی انتھک کوششوں کے بعد، ایک بچے کو بچا لیا گیا لیکن خراب موسم کی وجہ سے مشن کو منسوخ کرنا پڑا،اس کے بعد ایس ایس جی کے دستوں کی طرف سے مزید کوششیں کی گئیں اور اس مقصد کے لیے ایک خصوصی زپ لائنر ٹیم کو فوج کے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے جائے حادثہ پر پہنچایا گیا۔
ایمرجنسی سروس کے ایک اہلکار، بلال فیضی نے کہا کہ دونوں بالغ افراد کو سب سے ۤخر میں محفوظ مقام پر لایا گیا تھا۔ پہلی ریسکیو کی ایک ویڈیو میں ایک نوجوان کو ہیلی کاپٹر کے نیچے جھولتی ہوئی رسی کے نیچے لٹکتے ہوئے دکھایا گیا ہے جب نیچے موجود ہجوم خوشی کا اظہار کرتا نظر آیا۔
ایمرجنسی سروسز کے اہلکار وقار احمد نے اے ایف پی کو بتایا، “ایک بار جب سب کو بچا لیا گیا تو خاندان خوشی سے رونے لگے اور ایک دوسرے سے گلے مل کر رونے لگے۔”
“لوگ مسلسل دعا کر رہے تھے کیونکہ رسی ٹوٹنے کا خدشہ تھا۔ آخری شخص کو بچانے تک لوگ دعائیں کرتے رہے۔”
مسجد کے لاؤڈ سپیکرز سے اعلانات
چیئر لفٹ حادثہ پیش آیا تو مقامی رہائشیوں نے علاقے بھر کو صورتحال سے آگاہ کرنے کے لیے مسجد کے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کیا، اور سینکڑوں لوگ کھائی کے دونوں کناروں پر جمع ہوئے۔
فوجی ہیلی کاپٹروں نے کئی پروازیں کیں اور ایک ایئر مین کو گنڈولا تک خوراک، پانی اور دوائی پہنچانے کے لیے استعمال کیا گیا۔
اس سے پہلے، جیسے ہی ریسکیو آپریشن شروع ہوا، ہیڈ ماسٹر علی اصغر خان نے اے ایف پی کو فون پر بتایا کہ بچے تمام نوعمر لڑکے اور ان کے گورنمنٹ ہائی سکول بٹنگی پشتو کے طالب علم تھے۔ سکول ایک پہاڑی علاقے میں واقع ہے اور وہاں کوئی محفوظ کراسنگ نہیں ہے، اس لیے چیئر لفٹ کا استعمال عام ہے۔ والدین چیئر لفٹ کی جگہ پر جمع ہیں۔ وہ کیا کر سکتے ہیں؟ وہ ریسکیو اہلکاروں کے اپنے بچوں کو نکالنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہم سب پریشان ہیں۔
علاقے کے ایک اور اسکول کے استاد عابد الرحمان نے بتایا کہ تقریباً 500 لوگ ریسکیو مشن کو دیکھنے کے لیے جمع تھے۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، “والدین اور خواتین اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے رو رہے ہیں۔”
خیبر پختونخوا کے ایک سینئر صوبائی اہلکار سید حماد حیدر نے کہا کہ گنڈولا زمین سے تقریباً 1,000 سے 1,200 فٹ کی بلندی پر لٹکا ہوا تھا۔
کیبل کاریں جو مسافروں کو لے جاتی ہیں – صوبہ خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان کے شمالی علاقوں میں عام ہیں، اور ان علاقوں میں دیہاتوں اور قصبوں کو جوڑنے کے لیے بہت ضروری ہیں جہاں سڑکیں نہیں بن سکتیں۔
2017 میں، دارالحکومت اسلام آباد کے قریب ایک پہاڑی بستی می چیئر لفٹ کی کیبل ٹوٹ گئی تھی اور تم،ام سوار افراد کھائی میں گر گئے تھے، اس حادثہ میں10 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔