سپریم کورٹ کے جسٹس سید منصور علی شاہ نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست کے تحریری حکم نامے میں ایک نوٹ تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بے ضابطگی سے بچنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 پر فیصلے تک سماعت نہیں کی جانی چاہیے یا اگر کچھ عجلت کی ضرورت ہو تو فل کورٹ اس کی سماعت کرے۔
سپریم کورٹ نے جمعہ کو نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کیس کی سماعت کی تھی، اس سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کیا گیا ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ درخواست گزار نے 16 مئی کے حکمنامہ کے تحت عدالتی سوالات کے تحریری جوابات جمع کرائے،وفاقی حکومت کے وکیل نے نیب ترامیم کے خلاف کیس خارج کرنے کی استدعا کی،بظاہر 16 مئی کے عدالتی حکمنامہ پر عملدرآمد نہیں کیا گیا،کیس کی تیز سماعت کے لیے وفاقی حکومت کے وکیل کو تحریری جواب جمع کرانے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی جاتی ہے،29 اگست کو وفاقی حکومت کے وکیل دلائل دیں۔
اس حکم نامے میں جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ بھی شامل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہم 19 جولائی 2022 سے نیب ترامیم کے خلاف کیس سن رہے ہیں،16 مارچ کو کیس کی 46ویں سماعت کے بعد پارلیمنٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون نافذ کیا، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے سیکشن 3 کے مطابق 184(3) کے مقدمات کے لیے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی بینچ تشکیل دے گی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے سیکشن 4 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق مقدمات کی سماعت کم از کم پانچ رکنی لارجر بینچ کرے گا،پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون نافذ ہونے کے بعد میں ترامیم کی گزشتہ سماعت 16 مئی کو ہوئی،16 میی کی سماعت سے قبل میں نے کیس سننے سے متعلق چیف جسٹس پاکستان کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ بے ضابطگی سے بچنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 پر فیصلے تک سماعت نہیں کی جانی چاہیے یا اگر کچھ عجلت کی ضرورت ہو تو فل کورٹ اس کی سماعت کرے