لاہور کے علاقے اقبال ٹاؤن میں پولیس مقابلے کے مشکوک حالات اور واقعات نے کئی سوالات کو جنم دے دیا ۔
ہلاک ہونے والے مبینہ ڈاکو ڈاکٹر عباد کے گھر کیسے پہنچے؟کراس فائرنگ میں ڈاکووں کی ہلاکت کا دعویٰ کیاگیا،لیکن گھر اور دیواروں پر کوئی گولی لگی نہ شیشہ ٹوٹا۔
پولیس کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود مرنےوالوں کا کوئی کریمنل ریکارڈ سامنے نہیں لاسکی۔
پولیس ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ملزمان ریکارڈ یافتہ ہیں اور پولیس اگلے ایک دو روز میں ان کا ریکارڈ سامنے لائے گی۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مشہور زمانہ ڈاکٹر عباد چند سال قبل لڑکی اغوا کیس میں پولیس کو مطلوب رہا اور اس کا سکیورٹی گارڈ اس میں ملوث نکلا۔
ڈاکٹر عباد کے پولیس کے ساتھ انتہائی اچھے مراسم بتائے جاتے ہیں اور پولیس افسران اور اہلکاروں کا ان کے ہاں آنا جانا بتایا جاتا ہے۔
ایک سوال یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ ملزمان اگر واقعی ڈکیتی کی نیت سے آئے تھے تو انہوں نے چھٹی والے اور صبح کے وقت کا انتخاب کیوں کیا؟ جب کسی بھی گھر میں اہل خانہ کی موجودگی یقینی ہوتی ہے۔
یہ بھی انتہائی عجیب معاملہ ہے کہ کرائم سین سے کوئی گاڑی یاموٹرسائیکل نہ ملی،سی سی ٹی وی کیمروں کا ریکارڈ بھی غائب کر دیا گیا۔یرغمال بنائے گئے افراد میں سے بھی کوئی سامنے نہ آیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سی آئی اے اقبال ٹاؤن نے ڈاکوؤں کو پہلے سے حراست میں لے رکھا تھا،حراست میں لینے کے بعد ڈاکوؤں کو گھر کے اندر اکٹھا کیا گیا۔
ہلاک ڈاکووں کی شناخت علی رضا، عمران ، چاند ولد عبد المجید، علی رضا ولد رحمت علی، وسیم عرف چھیما اور محمد وسیم کے نام سے ہوئی ہے۔
ان ڈاکوؤں میں سے پانچ کا تعلق وہاڑی اور ایک کا تعلق خانیوال سے بتایا جارہا ہے
ذرائع کے مطابق ہلاک ہونے والے ڈاکو نوجوان تھے اور ان کی عمریں 22 سے 35 سال تک ہو سکتی ہیں۔