Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

فوج کے بندے سے ناقد تک، عمران خان کا یوٹرن، فرانسیسی میڈیا

Published

on

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری بین الاقوامی میڈیا میں بھی زیربحث ہے۔ اس گرفتاری کو بین الاقوامی میڈیا فوج اور ایک جماعت کے درمیان کشمکش کے طور پر پیش کر رہا ہے۔

فرانسیسی خبر ایجنسی نے ’’عمران خان کا یوٹرن، فوج کے بندے سے فوج کے ناقد تک‘‘ کی سخی جمائی اور لکھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان پاکستان فوج کے لیے ایک کانٹا بن چکے ہیں۔ایک سینئر انٹیلی جنس افسر پر کڑی تنقید کے بعد عمران خان کی گرفتاری، ان کی حیران کن مقبولیت اور فوج کے اثر و رسوخ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشمکش کی عکاس ہے۔

امریکی تھنک ٹینک سٹمسن سنٹر سے وابستہ الزبتھ ٹرلکلڈ نے فرانسیسی خبر ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے پاکستان کی سٹیبلشمنٹ کے حوالے سے کچھ ممنوعات کو توڑا ہے اور جو بات دھیمی آواز میں کہی جاتی تھی اسے بلند آواز میں کہا ہے۔ اب جن بوتل سے باہر آچکا ہے، اسے واپس بوتل میں بند کرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ثابت ہو رہا ہے۔

فرانسیسی خبر ایجنسی نے لکھا کہ پاکستان کی فوج آزادی کے بعد اب تک تین بار اقتدار پر قبضہ جماچکی ہے، تین عشروں سے بھی زیادہ براہ راست حکمرانی کر چکی ہے اور ملکی سیاست میں اب تک گہرا اثر و رسوخ رکھتی ہے۔ عمران خان 2108 ء میں پاکستان کی موروثی سیاست سے اکتائے عوام کے ووٹ لے کر اقتدار میں آئے، کئی سیاسی رہنماؤں اور تجزیہ کاروں نے کہا کہ یہ سب فوج کے مہربانی سے ہوا۔

اسی طرح جب پچھلے سال اپریل میں پارلیمان کے اندر ووٹ آف نو کانفیڈنس سے عمران خان کو نکالا گیا تو یہ بھی فوج کے ساتھ جھگڑے کا نتیجہ تھا۔

یہ جھگڑا عمران خان کی طرف سے ملک کی خارجہ پالیسی میں زیادہ مزید عمل کے مطالبے اور انٹیلی جنس چیف کی تقرری میں تاخیر پر شروع ہوا۔ 70 سالہ عمران خان نے اقتدار میں واپسی کے لیے سیاسی روایات توڑ دیں اور فوج کے حاضر سروس اور ریاٹئرڈ افسروں کو نشانے پر رکھ لیا۔

عمران خان کی اقتدار سے بیدخلی کے بعد وزارت عظمیٰ سنبھالنے والے شہباز شریف نے اس افسر کو فوج کا سربراہ مقرر کردیا، جس کے ساتھ عمران خان کا دوران اقتدار تنازع پیدا ہوا تھا۔شہباز شریف کی حکومت نے فوج پر تنقید روکنے کے لیے نئے قوانین بھی بنائے۔

اس سال فروری میں یہ قانون آیا کہ فوج پر تنقید کرنے والوں کو پانچ سال تک کی سزا ہو سکتی ہے، مارچ میں میڈیا میں یہ رپورٹس بھی آئیں کہ سوشل میڈیا کو لگام دینے کے لیے بھی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔

ان حالات میں عمران خان اپنے تنقیدی بیانات میں سختی بڑھاتے گئے، اور ان بیانات میں تندی و تیزی پچھلے سال نومبر میں عمران خان پر قاتلانہ حملے کے بعد عروج پر پہنچ گئی۔ عمران خان نے ایک سینئر فوجی افسر پر الزام لگایا کہ یہ حملہ شہباز شریف کے ساتھ اس افسر کی ملی بھگت کے ساتھ ہوا۔

تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں کہ عمران خان نے یہ تصور کیا کہ فوج پر دباؤ بڑھانے، فوج پر تنقید کرنے سے، فوج موجودہ حکومت کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لے گی۔ یہ خطرناک حکمت عملی ہے۔

عمران خان نے قاتلانہ حملے کے متعلق دعووں کے ثبوت کبھی پیش نہیں کئے۔ اس ہفتے انہوں نے الزامات دہرائے، اس پر فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو ایک غیرمعمولی سرزنش پر مجبور ہونا پڑااور ردعمل میں کہا گیا کہ عمران خان کے من گھڑت اور بدنیتی پر مبنی ہیں۔

ایک دن بعد ہی عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے میں رینجرز نے ایک کرپشن کیس میں گرفتار کر لیا۔

جنوبی ایشیائی امور کے ماہر، ولسن سنٹر کے ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ مائیکل کگلمین کہتے ہیں کہ گرفتاری کا وقت حیران کن ہے،فوج اپنے اور خان کے درمیان دراڑ کو بھرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔

پروفیسر حسن عسکری کہتے ہیں کہ اس مرحلے پر جمہوریت کا مستقبل غیریقینی نظر آتا ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین