Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

غزہ مزاحمت حتمی نتائج کی طرف بڑھ گئی !

Published

on

ismail-haniyehs-martyrdom-what-will-be-the-reaction-of-iran

اسماعیل ہانیہ کی شہادت نے دنیا بھر میں صدمے کی لہر دوڑا دی، اِس پیش دستی کے نتیجہ میں ایکبار پھر مڈل ایسٹ کی وسیع تر علاقائی حرکیات پر غیر یقینی کے سائے منڈلانے لگے ۔ ہانیہ کو بدھ کے روز ایرانی دارالحکومت تہران میں صدر مسعود پیزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے بعد قتل کیا گیا، اس حملہ نے حماس کے مسلح جدوجہد کے نظریہ کی توثیق کر دی،حماس طویل عرصے سے اس امر پہ یقین رکھتی ہے کہ صرف مسلح مزاحمت ہی فلسطین کی آزادی اور خطہ میں پائیدار امن کی ضمانت بن سکتی ہے ۔

پاکستان، ترکی، قطر، چین، روس، مصر اور اردن سمیت کئی دیگر ممالک نے تہران میں حماس کے رہنما کے قتل کی مذمت کی ہے،ترکی اور پاکستان نے اسماعیل ہانیہ کے اعزاز اور فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے سرکاری سطح پر یوم سوگ بھی منایا ۔ اُدھر ایرانی سرزمین پر اہم ترین مہمان کی حفاظت میں ناکامی کے بعد اپنی ساکھ بچانے کی ضرورت ایران کو بڑے علاقائی تنازعہ کی طرف دھکیل رہی ہے تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے، ایران کشیدگی میں بڑے اضافہ کا متمنی نہیں ہو گا،جیسے اپریل میں اس وقت بھی ایران نے کشیدگی بڑھانے سے گریز کیا جب شام میں ایرانی قونصل خانے کی عمارت پر فضائی حملہ کرکے اسرائیل نے دو ایرانی جنرلوں سمیت سفارتی عملہ کے 7 افراد کو شہید کر دیا ،تب بھی ایران نے بڑی کشیدگی سے بچنے کی خاطر جوابی کارروائی کے طور پہ کئے گئے علامتی حملوں کے اثرات کو کم سے کم سطح پہ رکھا، چنانچہ مغربی تجزیہ کار ایران سے ایک بار پھر ایسے ہی محتاط ردعمل کی توقع رکھتے ہیں لیکن تہران میں اسماعیل ہانیہ کا قتل ایران کی عزت نفس اور تاریخی ساسانی وقار کے لئے ایسا دھچکا ہے،تہران کے لئے جسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہو گا ۔

نیو یارک ٹائمز نے تین ایرانی عہدیداروں کے حوالے سے خبر دی ہے کہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے تہران میں نشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس کے دوران حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہانیہ کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے اسرائیل پہ براہ راست حملوں کا حکم دیا ہے۔ لبنان، یمن اور عراق میں موجود ایرانی پراکسیوں کی طرف سے اسرائیل کے خلاف زیادہ جدید اور مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے مربوط جوابی کارروائیاں ہو سکتی ہیں لیکن پھر بھی غالب امکان یہی ہے کہ ایران کم شدت والے تنازعے کو ترجیحی دے گا ، جس کا مقصد اسرائیل کو طویل اور مہنگی ترین جنگ میں گھسیٹنا ہو گا۔اس قتل کی خبر نے پورے فلسطین میں غم و غصے کو جنم دیا ، حماس کے مسلح ونگ، قسام بریگیڈ نے کہا ہے،ہانیہ کی شہادت اسرائیل کے ساتھ جنگ کو نئی سطحوں پر لے جائے گی، جس کے پورے خطے کے لیے بہت بُرے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں ۔

قطر اور مصر سمیت دیگر ممالک نے ہانیہ کی موت پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے،اسماعیل کی شہادت جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے تک پہنچنے کی کوششوں کو پٹڑی سے اتار سکتی ہے ۔صدر جوبائیڈن نے بھی جمعہ کو دیر گئے میڈیا نمائندوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ کی ہلاکت غزہ کی پٹی میں جنگ بندی تک پہنچنے میں مددگار نہیں ہو گی ۔ ہانیہ نے 2019 میں غزہ کی پٹی چھوڑ کر قطر میں رہائش اختیار کر لی تھی، غزہ میں حماس کے سرکردہ رہنما یحییٰ سنوار براہ راست مزاحمتی سرگرمیوں کی نگرانی کرتے ہیں، یہ قتل غزہ کے لوگوں کے لیے اس لحاظ سے بھی اہم تھا کہ اسماعیل ہانیہ ان بالواسطہ مذاکرات کی قیادت کر رہے تھے جس میں یہ امید پنہاں تھی کہ حماس کی قیادت جلد جنگ بندی کے معاہدہ تک پہنچ جائے گی۔

غزہ کے علاوہ مغربی کنارے کے فلسطینی بھی اسماعیل ہانیہ کو معتدل رہنما کے طور پر دیکھتے تھے جو تحریک کے عسکری حصے کی سربراہی کرنے والے دیگر رہنماؤں کے مقابلے میں زیادہ عملیت پسند سمجھے جاتے تھے ، اسی لئے خدشہ ہے کہ ہانیہ کا قتل اب تنازع کو مزید بڑھانے کا باعث بنے گا ۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سے حماس کی سیاسی سرگرمیوں پر اثر پڑے گا نہ ہی اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینیوں کی وسیع تر جدوجہد متاثر ہو گی ۔ حماس اپنی سیاسی قیادت کے انتخاب اور اس کے نقصان کو درست کرنے کے لیے حقیقت میں موافقت اور لچک کے لیے جانا جاتا ہے ۔ اس لئے ہانیہ کا قتل حماس کو زیادہ طاقت اور عوامی سطح پر مزید مقبولت فراہم کرے گا۔

لاریب،اسماعیل ہانیہ کا قتل بالعموم عربوں اور بالخصوص نوجوان فلسطینیوں کی اکثریت کے لئے ثابت کر گیا کہ فلسطین کاز مفاہمت کی بجائے مزاحمت کا متقاضی ہے۔ امر واقعہ بھی یہی ہے کہ حماس کے رہنماؤں خصوصاً سیاسی بیورو کو نشانہ بنانا 2002 سے اسرائیل کی حکمت عملی رہی جس میں اس کے بانی شیخ احمد یاسین اور اسماعیل ابو شناب جیسی متوازن شخصیات کو موت کے گھاٹ اتار گیا، انہی لوگوں کی شہادت کے نتیجہ میں حماس کو غیرمعمولی مقبولیت اور سیاسی پذیرائی ملی، اب حماس کے پاس ایک جدید ترین عسکری ونگ کے علاوہ جمہوری شوریٰ سمیت مکمل سیاسی ڈھانچہ موجود ہے جو الفتح کا بہترین متبادل بن سکتا ہے ۔ نئے حالات میں بھی ان کی یہی جمہوری کونسل اجلاس منعقد کرکے اس امر کا فیصلہ کرے گی کہ اسماعیل ہانیہ کے بعد حماس کے سیاسی بیورو کا نیا سربراہ کون ہوگا ۔ حماس اس دوران،ممکنہ طور پر یحیی سنوار کو عبوری قیادت کا کردار سونپ سکتی ہے ۔

اس جدلیات کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے مابین صلح کرانے کے بعد چین نے فلسطین کے دونوں بڑے دھڑوں، الفتح اور حماس، کے درمیان بیجنگ معاہدہ کرا کے مڈل ایسٹ میں پائیدار امن کی فضا پروانے چڑھانے کی راہ بنانے کی کوشش کرکے امریکہ کو مشتعل کر دیا، بیجنگ کی اسی مساعی کو سبوتاژ کرنے کے لئے امریکہ،اسرائیل کو ممکنہ طور پر غزہ جنگ بندی مذاکرات کو پٹڑی سے اتارنے اور علاقائی کشیدگی کو ہوا دینے کا محرک بنا سکتا ہے ۔ اگرچہ اسرائیل نے ابھی تک ہانیہ کے قتل میں اپنے ملوث ہونے کی تصدیق یا تردید نہیں کی ، بدھ کے روز اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اتنا کہا کہ اسرائیل نے حالیہ دنوں میں حماس اور حزب اللہ سمیت ایران کے پراکسیوں کو زبردست دھچکا پہنچایا ، نتن یاہو نے مزید کہا ، کسی بھی میدان سے ہمارے خلاف کسی بھی جارحیت کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی ۔

جہاں تک فلسطین کاز کا تعلق ہے تو اسرائیل نے 1960 سے لےکر 1990 کی دہائی کے اوائل تک الفتح اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے کئی رہنماؤں کو قتل کیا لیکن اس کا فلسطین کی جنگ آزادی پر کوئی اثر نہیں پڑا کیونکہ فلسطینی جدوجہد کسی شخص یا کسی ایک سیاسی جماعت یا کسی ادارے سے مشروط نہیں ۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ہانیہ کا قتل حماس کو مادی طور پر بھی کمزور نہیں کرے گا کیونکہ اس گروپ کے پاس ان کی جگہ لینے کے لیے دیگر شخصیات موجود ہیں لیکن ہانیہ کے قتل کے بعد خطہ میں صورتحال ڈرامائی انداز میں کوئی انتہائی خطرناک موڑ لے سکتی ہے ، ہانیہ پر حملہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیلی قیادت امریکی ایما پر ایک بڑی علاقائی جنگ کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہے ۔ اس بات کا امکان بھی کم ہے کہ غزہ میں حالات بہتر ہوں گے یا حماس جنگ بندی پر راضی ہو جائے گی ۔

یہ بجا کہ غزہ میں معصوم شہریوں کے قتل عام نے سیاسی حل کے امکانات کو دور کر رکھا ہے اور اسرائیل مزید قتل عام کی کوشش سے بھی باز نہیں آئے گا، جس کے نتیجہ میں آنے والے دنوں میں جنگ بندی پر کسی قسم کے مذاکرات کا امکان نظر نہیں آتا، کسی کو معلوم نہیں کہ مذاکرات کب اور کیسے دوبارہ شروع ہوں گے ۔ مبصرین کہتے ہیں کہ حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ کو قتل کرنا بظاہر اسرائیلی فوج کے لئے حوصلہ افزا اور غیر مقبول نیتن یاہو کے لیے اعزاز ہو گا ، اگر اسرائیل نے ہانیہ کو مارنے کی رفتار سے فائدہ لینا ہے تو اسے جلد ہی کسی معاہدے پر رضامند ہونا چاہیے کیونکہ بہت سے اسرائیلی بھی غزہ میں قیدیوں کی بازیابی اور اسرائیلی فوج پر دباؤ کم کرنے کے لیے جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں، جن کے پاس سازوسامان، گولہ بارود اور ریزروسٹ کم ہو رہے ہیں، ان میں بہت سے ڈیوٹی کے لئے رپورٹ کرنے سے تیزی سے انکار کر رہے ہیں ۔

علیٰ ہذالقیاس ، غزہ میں تقریباً 10 ماہ کی لڑائی کے بعد ، اسرائیل اب تک حماس کے سرکردہ رہنماؤں کو نکالنے میں ناکام رہا ، 7 اکتوبر کے ماسٹر مائنڈ ، یحییٰ سنوار ، اب بھی غزہ میں موجود ہیں ، یہ بھی واضح نہیں کہ آیا اس ماہ کے شروع میں گروپ کے ملٹری کمانڈر محمد ضیف کو نشانہ بنانے والا فضائی حملہ کامیاب ہوا یا نہیں ۔ حماس اگرچہ اسرائیلی قتل و غارت گری کے نتیجے میں لیڈروں کو تبدیل کرنے اور نئی قیادت کی تشہیر کا عادی ہے لیکن ہانیہ جیسی عالمی سطح پر مشہور شخصیت کے کھو دینے کا آپریشنل اثر ضرور پڑے گا ، حماس کے 62 سالہ تجربہ کار لیڈر نے تہران اور ارد گرد کے علاقوں بشمول حزب اللہ کے اتحادیوں کے ساتھ تحریک کے تعلقات کا مربوط نیٹ ورک بنا لیا تھا ، حماس کے سیاسی بیورو لیڈر کو بڑے پیمانے پر غزہ میں گروپ کے رہنما یحیی سنوار جیسے سخت گیر افراد کے مقابلے میں زیادہ عملی اور اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے لیے لچکدار سمجھا جاتا تھا ۔ ہانیہ مسلح مزاحمت کے ساتھ سیاسی اور سفارتی کوششوں کے لیے حماس کے اندر ابتدائی وکیل تھے، انہوں نے اپنے پیشرو کے 2017 کے نظرثانی شدہ چارٹر کو اپنایا ، جس نے اسرائیل کے وجود کو واضح طور پر قبول کیا تھا، اسماعیل ہانیہ کے قتل سے خطہ کے وسیع تر تنازعہ کی طرف بڑھنے کا خطرہ بڑھ گیا۔

ریاستہائے متحدہ اور یوروپی یونین کے سفارت کاروں بارے اطلاع ہے کہ انہوں نے بحران کو بڑھنے سے روکنے کی خاطر اپنی کوششوں کو ایران پہ مرکوز کر دیا ، جس کے رہنماؤں نے تہران میں ہانیہ کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرا کر اسرائیل کے خلاف سخت انتقامی کاروائی کا عہد کر لیا ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین