Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

آئی جی ایف سی، کور کمانڈر بلوچستان پارلیمنٹ کو بتائیں بلوچستان کیوں ہاتھوں سے نکل رہا ہے؟ سینیٹر عمر فاروق کا سینیٹ میں خطاب

Published

on

Amendment bill of minimum graduation requirement for MPs rejected by Senate

اے این پی کے سینیٹر عمر فاروق نے بلوچستان کی سیکیورٹی پر بحث کے دوران کہاہے کہ یہ بلوچستان کا مسئلہ ہے ہمیں وہاں کے اداروں کو بلانا چاہیے ۔ آئی جی ایف سی کو بلانا چاہیئے ، کور کمانڈر صاحب ذرا یہاں پہ ا جائیں ہمیں تفصیل بتائیں یہ بلوچستان اپ کے ہاتھوں سے کیوں نکل رہا ہے۔

سینیٹر عمر فاروق نے سینیٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں تو وہاں کے اداروں کو بلانا چاہیے کہ آپ کور کمانڈر صاحب ذرا یہاں پہ ا جائیں ہمارے پاس سینٹ میں، ہمیں تفصیل بتائیں یہ بلوچستان اپ کے ہاتھوں سے کیوں نکل رہا ہے؟ ہم نے بار بار اس چیز کی نشاندہی کی کہ وہاں پر ہمارے سرکاری لوگ صرف پیسے وصول کر رہے ہیں، ہر ایک پوسٹ کا ایک پیسہ وصول ہو رہا ہے، کسی کو سکیورٹی کی طرف دیکھنے کا ٹائم ہی نہیں ہے اور یہ آج دوبارہ یہ بات دہرائی گئی ہے مشرف نے کہا تھا کہ میں وہاں سے حملہ کروں گا ،تو اج اج جو رو رہے ہو نا! یہ پوائنٹ تھا، بھائی ایس ایچ او کو چھوڑ دیں اپنے بکتر بند گاڑیاں تو کچے کے علاقوں سے لائیں پہلے، ہمارا اپنے اپنا سر اونچا کریں، وہاں سے 12 سے 12 13 13 پولیس وہ قتل کر رہے ہیں ، آپ لوگ کیا کر رہے ہو؟

سینیٹر عمر فاروق نے کہا کہ چلو بلوچستان کو تو چھوڑ دو ، وہ تو ان کے ہاتھ میں ہی نہیں ہے، سر اس پہ میں یہ بات کبھی بھی نہیں کرنا چاہوں گا اگر آپ آج بھی توہین کر رہے ہیں لاشوں کی جو 26 اگست کو شہید ہوئے، یہ دو چار دن سے جو یہ چل رہا اجلاس ہے اس کی توہین ہے، اس لیے توہین ہے کہ آپ ان لوگوں کو بول رہے ہو جس کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، آپ نے نواب نوروز کال کو پہاڑ سے قران شریف پہ اتارا، اس کے بعد اس کو اور اس کے بیٹے کو پھانسی دی گئی، تو اپ پہ اعتبار کریں قران کے اوپر کیا چیز رہتی ہے کہ وہاں پہ اعتبار کریں کیا وہ لوگ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ فرق ہمیں معلوم ہے فرق یہ ہے کہ جو پاکستان کو نہیں مانتا بندوق اٹھائی ہے وہ دہشت گرد ہم یہ نہیں چاہتے سر ہم تو چاہتے ہیں کہ اس کو دہشت گرد بنایا کس نے ہے؟ وہ کیوں بپاڑ پر گیا؟

سینیٹر عمر فاروق نے کہا کہ بلوچوں نے تو پاکستان کو تسلیم کیا تھا وہ تو پاکستان کا حصہ بن گئے، آج وہ کیوں پہاڑ میں بیٹھے ہیں؟  یہاں پہ ہمارے وزراء تھے اج جو وزرا یہاں بیٹھے ہیں وہ کس طریقے سے ائے؟ وہ پہلے وزیر بنے بعد میں سینیٹر بنے، اب ان کو بھی سننا پڑے گا، یہ بہت غلط روایات ہیں، جناب چیئرمین صاحب ہمیں سن کے جواب دیں بالکل اعظم نذیر صاحب ہمارے محترم ہیں، ہمارے سینیٹر ہیں، ہمارے بھائی ہیں لیکن جو منسٹری جس کے پاس ہے وہ ہمیں کم سے کم وہ جو کہتے ہو بلوچستان کے اندر صرف یہ ایشوز نہیں ہیں، سر میں نے کہا یہ پہلی دفعہ بھی نہیں ہے،جو کل کی میٹنگ تھی یہ بتا رہے ہیں کہ تمام پارٹیاں ائی ہیں، تو تمام پارٹیوں کی باتیں تو یہ سامنے رکھیں کہ کس کس پارٹی نے اپ کو کیا کہا ہے؟

عرمر فاروق نے کہا کہ  اس میں سے زیادہ تر پارٹیاں جو جمہوری نظام کو مدنظر رکھتے ہوئے جو بات کرتے ہیں ان سب نے یہ ڈیمانڈ کیا کہ سب سے پہلے یہ حالات کس کی وجہ سے خراب ہوئے ہیں ان کو نشاندہی کی جائے، اب مجھے یہ سمجھ نہیں آتا وہ دو منٹ میں بات کر کے چلے گئے اور بڑے مطمئن تھے تو اس طرح تو سر یہ بلوچستان کے ساتھ ابھی نہیں ہے 70 سال سے ہو رہا ہے، وہاں کے سی ایم کے پاس ایک اسسٹنٹ کمشنر کو تبدیل کرنے کا اختیار نہیں، وہاں پہ کوئی ایکسین لگا نہیں سکتا وہ اور یہاں پہ ہمارے بہت سارے لوگ خوش ہیں،بلوچستان میں اج تک کسی بھی گورنمنٹ نہیں ہے سر وہاں پر بہت بڑے لوگوں کی گورنمنٹ ہے اور انہی لوگوں کو میں یہاں بلانا چاہتا ہوں کہ اپ کے تسلسل سے میرے سارے دوستوں کے کہ وہ ائیں، آئی جی ایف سی آئے کور کمانڈر صاحب آئیں یہاں پر، ہمیں ذرا بتائیں بلوچستان کے بارے میں، اگر اس طرح آپ چلائیں گے یا تو ایف سی کو واپس بلائیں۔

سینیٹر عمر فاروق نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ بالکل وہاں پہ پارٹیز چلا رہے  ہیں،تو پھر پارٹی کو چھوڑو، پھر ایف سی کی ضرورت نہیں پڑتی، یہ میں نے  کمیٹی برائے داخلہ امور میں بھی بولا ،صبح چھ بجے نماز کے بعد ہمیں وردیوں میں پولیس والے مل جاتے ہیں، اب یہ نہیں پتہ کہ دن کو وہ کہاں ہوتے ہیں ؟ رات کو یہ سادہ لباس میں ہوتے ہیں، کیا تو ان سب چیزوں کے بارے میں ہمیں کون بتائے گا؟

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین