Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

پاکستان

1992 میں کارڈز جاری کر کے جائیداد خریداری اور کاروبار کی اجازت دی گئی، اب زور زبردستی کیوں؟ افغان کمیونٹی

Published

on

پاکستان میں افغان کمیونٹی کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ ملک بھر میں قانونی طور پر رہائش پذیر افغان باشندوں کے ساتھ ناروا سلوک پاکستانیوں اور افغانوں دونوں کے لیے مناسب نہیں۔

 افغانی کمیونٹی کے جنرل سیکرٹری فداءالدین نے وفد کے ہمراہ لاہور میں پریس کانفرنس کی۔

فداء الدین نے کہا کہ ہمارے لوگوں کے پاس کارڈز موجود ہونے کے باوجود انہیں پولیس ناکوں پر روکا جا رہا ہے اور بغیر تفتیش تھانوں میں بند کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کے اعلان کردہ 7 لاکھ افغان باشندوں میں سے 90 فیصد پاکستان چھوڑ چکے ہیں جبکہ باقی ماندہ جانے کو تیار ہیں پھر دباؤ کیوں ڈالا جارہا ہے؟
واپس جانے والوں کی مشکلات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ  واپس جانے والے افغان مہاجرین کے لیے بارڈر پر شدید مشکلات ہیں نہ وہاں کیمپس لگانے گیے ہیں نہ ہی واش روم کی سہولت ہے دس سے بیس دن شدید سردی میں بغیر کیمپس کے گزارا کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغان اور پاکستان حکومت سے درخواست ہے کہ وہ کم از کم انسانی ہمدردی دکھائیں اور بارڈر کراسنگ کے طریقہ کار کو آسان اور وقت کو کم کرے

وفد کے رکن حاجی حاصل خان کا کہنا تھا کہ ہم لوگوں کے پاس موجود کارڈز ایکسپائر ہوتے ہیں تو حکومتی اعلان کے بعد  ان کو اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے اس میں ہم لوگ تو صرف جا ہی سکتے ہیں ان کے ایکسپائر ہونے میں ہم لوگوں کا کوئی قصور نہیں حکومت اس کے لیے مناسب میکانزم تلاش کرے اور اس پر عملدرآمد کرے

وفد نے بتایا کہ ہم لوگ 1979 میں پاکستان آئے اور 1982تک مختلف کیمپس میں مختلف شیروں میں شفٹ کر دیا گیا جہاں سے 1992 میں دس سال بعد ہمیں کاروبار کرنے اور جائیدادیں خریدنے کی اجازت دی گئی اور ہمیں کارڈز دینے گئے۔

ملک نور محمد کا کہنا تھا کہ ہم لوگوں کو جو قانونی طور پر مقیم ہیں جو لوگ گھر نہیں دے رہے اور جن کے پاس مکانات ہیں ان سے زبردستی خالی کروا رہے ہیں ایسا کیوں؟

وفد کا کہنا تھا کہ پاکستان اور پنجاب حکومت کو چاہئے کہ وہ میڈیا پر آکر فرق کو واضح کریں کیونکہ افواہوں سے ہمارے کاروبار متاثر ہو رہے ہیں ہمارا سوشل بائیکاٹ کیا جارہا ہے۔

افغان کمیونٹی کے جنرل سیکرٹری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں موجود ایسے عناصر جو سرزمین پاکستان پر دہشت گردی پھیلا رہے ہیں یا ان کی مدد کر رہے ہیں یا مذہبی منافرت پھیلا رہے ہیں ان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، ان کو ناصرف آئین پاکستان کے مطابق سزائیں دیں بلکہ ملک بدر بھی کریں، مگر ان دہشت پسندوں کی تعداد چند ہزار بھی نہیں شاید چند سو ہوسکتی ہے۔

انہوں نے میڈیا سے درخواست کی کہ آپ ہمارے حقوق کی آواز بنیں اور حق تلفی کو سامنے لائیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین