Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

پاکستان

تصوف میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش

Published

on

تصوف یعنی دل کی دنیا کو آباد کرنا،صاف کرنا،پاک کرنا حضور اکرمﷺ کو اس دنیا میں جن چار مقاصد کی تکمیل کے لئے مبعوث فرمایا ان میں سے ایک تزکیہ نفس بھی ہے۔تصوف نام ہے رب تعالیٰ کی رضا کا۔حقیقت تو یہ ہے کہ تصوف اسلام کی روح ہے اور ایمان کا جوہر ہے کیوں؟ اس لئے کہ اسلام کا مقصدِ اصلی محض اسلامی تعلیم دینا یا سیاسی نظام قائم کرنا نہیں ہے بلکہ زندہ خدا سے زندہ رابطہ پیدا کرنے کا طریقہ سکھانا ہے۔ قرآن کی غرض و غایت قیامِ حکومت نہیں ہے بلکہ بنی آدم میں تعلق باللہ کی اہمیت کا شعور پیدا کرنا اور اس حقیقت کا جاگزیں کرنا کہ اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق نہ ہو تو انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں ہے۔حضورِ انورﷺ نے قریشِ مکہ سے کبھی یہ نہیں کہا  کہ اگر تم میری پیروی کروگے تو میں تمہیں حکمران بنادوں گا اس کے بجائے صر ف یہ کہا کہ میری پیروی کرو میں تمہیں اللہ سے ملا دوں گا۔ بلکہ حضرت محمدﷺ کی پیروی میں یہ تاثیر تھی کہ تم خود اللہ کے محبوب بن جاو گے قرآن کریم اس کی گواہی دیتا ہوا نظر آتا ہے

’’ اے رسول ﷺ! آپ مسلمانوں سے فرمادیجئیے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا چاہتے ہو اس کی صورت یہ ہے کہ میری اتباع کرو(۳:۳۱)‘‘

اس  اتباع کا ثمرہ یہ ملے گاکہ اللہ تعالیٰ تم سے اس قدر راضی ہوجائےگا کہ وہ کود تم سے محبت کرنے لگےگا۔اب اگر غور کریں تو تاریخِ اسلامی گواہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو حکومت بھی ملی لیکن حکومت فی نفسھا مقصود نہیں تھی دراصل یہ ایک انعام تھا جو بارگاہِ ایزدی سے عطا ہواتھا مسلمان کا مقصد حیات اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے حکومت ملے یا نہ ملے۔

میں علیٰ وجہ البصیرت   یہ بات کہتا ہوں کہ اسلامی تصوف اللہ کو راضی کرنے کا طریق کار(پروگرام) کا دوسرا نام ہے شریعت میں اللہ تعالیٰ معبود ہے طریقت میں اللہ تعالیٰ مقصود ہے۔جب تک اللہ تعالیٰ صرف معبود ہے مسلمان بادشاہوں کی غلامی میں کوئی دقت تا قباحت محسوس نہیں کرتا مگر جب اس کا مقصود اللہ بن جاتا ہےتو سلاطینِ عالم خود اس کی قدم بوسی کو اپنے لئے باعثِ سعادت یقین کرتے ہیں ۔ جسے شک ہو وہ حضرت سلطان الہند غریب نواز  خواجہ خواجگان  خواجہ معین الدین اجمیریؒ ،قطب الاقطاب خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ ، شیخ الشیوخ عالم خواجہ فرید الدین گنج شکرؒ اور سلطان المشائخ حضرت شیخ نظام الدین اولیاءؒ کی زندگیوں کا مطالعہ کرے

اکبر الہ آبادی نے کیا خوب کہا ہے

کم ہیں جو سمجھتے ہیں کہ مقصود وہی ہے                                              یہ سب کو ہے تسلیم کہ معبود وہی ہے

تصوف ایک جامع علمی اصطلاح ہے معرفت،تزکیہ نفس، احسان، فقر،زہد،سلوک ،طریقت اور درویشی تصوف کے مختلف پہلو ہیں ۔تصوف ایک علمی اصطلاح ہے جو ان تمام پہلووں کو محیط ہے۔ اِسلامی تصوف ،قرآن و حدیث سے ماخوذ ہے اور اِس کے اجزائے ترکیبی توحیدِ خالص، تبلیغِ دین ، اتباع شریعت، خدمت خلق اور جہاد ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ چوتھی صدی ہجری کے بعد مسلمانوں میں غیر اسلامی تصوف  بھی راہ پاگیا  اور یہ تصوف چونکہ عجمی یا غیر اسلامی تھا اس لئے اس کے اجزائے ترکیبی اسلامی تصوف کی ضد تھے، شرک، (حلول و اتحاد،انسان پرستی) رہبانیت، تخریبِ دین، اباحت ِ مطلقہ اور نفاق و مداہنت۔

ڈاکٹر محمد اقبال  مرحومؒ نے اپنے اردو، فارسی کلام میں جگہ جگہ اسی غیر اسلامی تصوف کی مذمت کی ہے۔یہ اسی غیر  اسلامی تصوف کا نتیجہ ہے کہ وہ خانقاہیں جہاں مسلمانوں کو اخلاقِ حسنہ،خدمتِ خلق،توبہ،ایثارو قربانی کا درس دیا جاتا تھا۔آج وہاں شخصیت پرستی  بلکہ معافی کے ساتھ قبر پرستی کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔میرے اساتذہ اکثر فرماتے تھے کہ بیٹا عبادت کے ساتھ جنت ملتی ہے اور خدمت کے ساتھ خدا ملتا ہے ۔یہی خدمت کا درس ان خانقاہوں کا امتیازی پہلو ہوا کرتا تھا ۔مگر افسوس کے ساتھ آج وہ خانقاہیں قوالی کی محفلوں میں تبدیل ہوگئی ہیں بلکہ شرک و بدعت کا مرجع بن گئی ہیں

کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریقِ خانقاہی              یہ معاملے ہیں نازک جو تیری رضا  ہو تو کر

(اقبال مرحوم)

ڈاکٹر محمد حسنین علوم اسلامیہ کے اسکالر ہیں، یونیورسٹی آف ایجوکیشن ٹاؤن شپ کیمپس لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور اسی یونیورسٹی میں اعزازی طور پر جامعہ مسجد کے خطیب وامام ہیں ، مختلف قومی اخبارات میں کالم لکھتے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا پر دینی امور کے حوالے سے پروگرامز میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں، ڈاکٹر محمد حسنین نسل نوجوان کی تربیت پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ ان کی ڈاکٹریٹ کا موضوع اسلامی حکومت کی فرضیت اورعدم فرضیت کا ایک علمی و تقابلی مطالعہ تھا۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین