Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

پاک بھارت کشیدگی، کراچی کے مندروں میں400 استھیاں گنگا بہائے جانے کی منتظر،دادا کی استھیاں پوتے بھی ہردوار نہ پہنچا سکے

Published

on

پاک بھارت کشیدہ تعلقات نے دونوں طرف کے کروڑوں عوام کو سرحدوں کا اس حد تک پابند کر دیا ہے کہ اب مرنے والوں کی آخری رسومات ادا کرنا ناممکن ہو چکا ہے، کراچی کی ہندو برادری کے سیکڑوں مر جانے والوں کی استھیاں گنگا بہائے جانے کی منتظر ہیں۔

مندروں میں رکھی استھیوں میں کئی ایک باپ، دادا اور پوتا یا پوتی ہیں اور اب تک ہریدوار لے جائے جانے کے منتظر ہیں۔

حال ہی میں بھارت کی جانب سے اسپانسر شپ کی شرط پر نظرثانی کے بعد4 ماہ کے دوران مرنے والے 30 ہندووں کی استھیاں بھارت روانہ کی جاچکی ہیں،تاہم سون پوری شمشان گھاٹ سمیت دیگر مندروں میں اب بھی400 کے قریب استھیاں گنگا میں بہائے جانے کی منتظر ہیں۔

کراچی کے سون پوری شمشان گھاٹ اور مندروں او میں رکھی دیہانت ہوجانے والے پاکستانی ہندووں کی 400استھیوں کو لواحقین کے ہمراہ ہریدوار گنگا(بھارت)میں بہانے کی امید تو بندھی،تاہم ان استھیوں کی اجتماعی سطح پربھارت روانگی تاحال تعطل کا شکارہے۔

واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل بھارت سرکار نے مرنے والے ہندوؤں کے لواحقین کو 10 روزہ ویزہ جاری کرنے کا عندیہ دے دیاتھا،ماضی میں انڈین حکومت قانونی دستاویزات کے باوجود ویزے کی درخواست مسترد کردیتی تھی۔

سن 2011 اور سن 2016 میں مجموعی طور پر 295 استھیاں واہگہ بارڈر پر سیوکوں (خدمتگاروں) کے قافلےکے ہمراہ بھیجی جاچکی ہیں،تاہم پہلی مرتبہ خون کےرشتے یا پھر خاندان کے کسی فرد کو استھی کے ہمراہ بھارت یاترا کی اجازت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس وعدے کے بعد 4 ماہ کے دوران 30 کے لگ بھگ استھیاں روانہ ہوچکی ہیں۔اس نرمی سے قبل گذشتہ برسوں میں قانونی دستاویزات کے باوجود یہ کوشش چاند پر کمند ڈالنے کے مترادف رہی۔

کراچی کے قدیم علاقوں رنچھوڑ لائن،سولجربازار،رامسوامی سمیت کچھ علاقوں میں ہندو برادری کی بڑی تعداد آباد ہے،دیہی سندھ کے مٹھی،تھرپارکر،کنری،ننگر پارکر میں بھی ہندو برادری بڑی تعداد میں آباد ہے،کراچی سمیت دیہی سندھ میں 8 لاکھ کی آبادی رکھنے والے ان ہندو خاندانوں کے کسی فرد کے مرنے کے بعد اگنی سنسکار(آخری رسومات)کے بعد اس کی راکھ کوہریدوار گنگا میں بہانا ہندو مذہب کا لازمی جزو ہے۔

مختلف مندروں میں رکھی پاکستانی ہندوؤں کی استھیاں ہندو دھرم کے  مذہبی عقائد کے مطابق گنگا میں وسرجن کی منتظر رہیں۔

سولجر بازرار کے گنجان آبادی میں واقع 1500 سال قدیم شری پنچ مکھی ہنومان مندرکے گدی پتی رام ناتھ مہارج کے مطابق کچھ عرصہ قبل بھارت کی جانب سے اسپانسر شپ کی کڑی شرط عائد تھی،یعنی بھارت میں مستقل مقیم کسی فرد کے حوالے کی بنا پر ہی ویزہ جاری کیا جاتا تھا،تاہم اس کڑی شرط میں نرمی کے بعد اب یہ امید پیدا ہوچلی ہے کہ دنیا سے کوچ کرجانے والے ہندودھرم کے ماننے والوں کی استھیوں کو ان کی خواہش کے مطابق گنگا میں بہایا جاسکےگا۔

ہنومان مندر کے گدی پتی رام ناتھ مہاراج کا کہنا ہے اس وقت سینکڑوں ہندوؤں کی استھیاں پاکستان کے مختلف مندروں میں محفوظ ہیں،پرانا گولیمار میں واقع سون پوری شمشان گھاٹ کے استھی  کلش پیلیس میں 298 استھیاں لواحقین نے انھیں سونپی ہیں۔ 100دیگراستھیاں بھی موجود ہیں،ان 400 کے قریب استھیوں کے  پیاروں کوامید ہو چلی ہے کہ وہ ایک دن ہریدوار پہنچ سکیں گی۔

مہاراج شری رام ناتھ کے مطابق کافی عرصے سے بھارتی ہائی کمیشن سے بات چل رہی تھی،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسپانسر شپ کی لازمی شرط کوختم کردیا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ رواں برس جولائی،اگست میں اس حوالے پیش رفت متوقع ہے،شری رام ناتھ کے مطابق تیسری مرتبہ استھیاں بھارت لے جائی جائیں گی،تاہم پہلے اوراب میں فرق یہ ہے کہ اس مرتبہ ان استھیوں کے وارث بھی ساتھ ہونگے۔ ماضی میں دونوں مرتبہ رام ناتھ مہاراج نے ان استھیوں کا بھائی،بیٹا بن کر یہ بیڑا اٹھایا تھا،پہلی مرتبہ سن 2011 میں 135 استھیاں لے کر گئے تھے۔

ان استھیوں کے حوالے سے لواحقین اور ورثا کے لیے اذیتناک بات یہ تھی کہ وہ تقسیم ہند کے وقت سے شمشان گھاٹ میں موجود تھیں،جنھیں 64 برس بعد گنگاجی میں بہایا جاسکا۔ 64 برس گنگا بہائے جانے کی منتظر استھیوں میں باپ،بیٹے اور پوتے کی استھیاں بھی موجود تھیں۔

اس کے بعددوسری مرتبہ سن 2016 ء میں گروپ کی صورت میں 160 استھیاں بھارت لے جائی گئیں،دونوں مرتبہ یہ مرحلہ واہگہ بارڈر کے راستے طے ہوا،جس کے بعد واہگہ اور اٹاری پر قافلے کی شکل میں ہریدوار(گنگا جی) تک سفر طے ہوا۔

استھی کیا ہے ؟

استھی کسی بھی مرنے والے ہندو کی چتا کا شمشان گھاٹ میں اگنی سنسکار کیا جاتا ہے، اس کے بعد اکھٹی ہونے والی راکھ کو استھی کہتے ہیں،جس کو مٹی کی ایک گڑوی یا پھر چھوٹے سائز کے مٹکے میں محفوظ کردیا جاتا ہے،اس مٹکی کے منہ پر راکھ کی حفاظت کے پیش نظر ایک کپڑا باندھ دیا جاتا ہے۔

ہندو دھرم میں 12سال کے تک بچوں کی میتوں کو جلایا نہیں جاتا

سون پوری شمشان گھاٹ میں ہندو بچوں کا الگ سے ایک قبرستان موجود ہے،بچوں کی قبروں کے ساتھ ہی سون پوری شمشان گھاٹ کے گدی پتی شری گرودرگابھارتی مہاراج اوران کے سیوک (خدمتگار) چمن دودھ ناتھ مشرامہاراج کی سمادھی بھی موجود ہے، یہاں کے سیوکوں کا کہنا ہے کہ ان کو ان سمادھیوں میں لٹاکردفن نہیں کیا گیا بلکہ وہ آلتی پالتی مارے بیٹھے ہیں،ہندو دھرم سے جڑے ان افراد کا عقیدہ ہے کہ سمادھی کے اندر دفن گدی پتی کے پاس بیماروں کے علاج کی شکتی موجود ہے۔

سون پوری شمشان گھاٹ میں مسلمان کے ہاتھوں  اگنی سسنکار کے انتظامات

سون پوری شمشان گھاٹ سے وابستہ پرویز بلوچ نامی فرد کا کہنا ہے کہ انھوں پوری زندگی یہیں پر گذار دی ہے،ماضی میں ان کے پرکھوں نے یہ ذمہ داری نبھائی،پرویز بلوچ کے مطابق اگنی سنسکار کے لیے آنے والی استھیوں کی لکڑیاں،پھول اور دیگر لوازمات جیسے خوشبودار جڑی بوٹیاں اور گھی یا تیل سمیت دیگر انتظامات ان کے ہاتھوں سےہوتے ہیں،مگر چتا کو مرنے والی خاتون یا مرد کے لواحقین ہی آگ دکھاتے ہیں،جو ان کی ایک آخری مذہبی رسم ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین