دنیا
کیامسلم ملکوں کے زائرین کا سفر بیت المقدس جائز ہے؟
ایک اور رمضان المبارک اور فلسطینیوں پر جبر و تشدد کا ایک اور سخت ترین مہینہ، اسرائیلی فورسز نے ایک بار پھر مسجد اقصیٰ پر دھاوا بول کر نمازیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ اسرائیل کو قانونی طور پر حرم الشریف، جہاں مسجد اقصیٰ موجود ہے، پر کوئی اختیار حاصل نہیں۔ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سٹیٹس کو کے تحت اردن اور اردن کی مقرر کردہ بیت المقدس وقف کونسل کو یہ اختیار حاصل ہے کہ حرم الشریف میں کیا ہوسکتا ہے اور کیا نہیں۔
اس سب کے باوجود اسرائیلی حکام نے مسجد اقصیٰ میں رمضان المبارک کے دوران رات کے اوقات میں عبادت پر پابندی عائد کی اور فلسطینیوں کو اپنے عقائد کے مطابق عمل سے روکا۔اس پر فلسطینی عوام نے مزاحمت کی، اسرائیلی حکام نے ایک بار پھر فلسطینیوں کے مسجد داخلے پر نہ صرف پابندی لگائی بلکہ انہیں ان کے اپنے آبائی وطن میں آزادانہ نقل وحرکت کے بنیادی حق سے بھی روکا۔
اسرائیلی تشدد اور پالیسیوں پر مسلمانوں کا ردعمل کیا ہو؟
بین الاقوامی میڈیا نے رمضان المبارک کے دوران اسرائیلی تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو رپورٹ کیا اور اب دنیا کے دیگر ایشوز پر فوکس منتقل ہو چکا لیکن بحیثیت مسلمان ہمیں سوچنا ہوگا کہ اسرائیلی تشدد اور پالیسیوں پر ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہئے۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کو اسلام کے تیسرے مقدس ترین مقام کی زیارت کے لیے کیا کرنا چاہئے اور مقبوضہ بیت المقدس کا سفر کیسے کرنا چاہئے۔
اس سوال پر غور کرتے ہوئے سب سے پہلے ہمیں اسرائیلی قبضے اور نسل پرستی کے نظام کو سمجھنا پڑے گا ، جس کے تحت فلسطینی عوام زندگی گزار رہے ہیں ۔
کئی دہائیوں سے فلسطینی عوام کو اسرائیل کی کئی بے رحم پالیسیوں کا سامنا ہے، جن میں زمینوں پر قبضہ، معاشی قبضہ اور غیر قانونی بستیوں کی تعمیر شامل ہے۔ ۔ اسرائیل باقاعدگی سے فلسطینیوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے، حتیٰ کہ فلسطینی بچوں کو بھی نہیں بخشتا، جنہیں اسرائیلی فورسز نے ڈرایا، مارا پیٹا، گرفتار کیا اور یہاں تک کہ قتل کر دیا۔
فلسطینیوں پر اسرائیلی فورسز کا جبر و تشدد
اسرائیلی فوجی اکثر فلسطینی برادریوں پر چھاپے مارتے ہیں اور فلسطینیوں کو بے دریغ قتل کرتے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کی بھی غیر قانونی ناکہ بندی کر رکھی ہے، جس سے اس علاقے کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جہاں اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی مہم کو بڑھاتے ہوئے باقاعدگی سے بمباری کرتا ہے۔
یہاں تک کہ اسرائیلی شہریت کے حامل فلسطینیوں کو بھی اسرائیلی نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن کے ساتھ تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور دیگر ضروری خدمات سمیت زندگی کے تمام پہلوؤں میں امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔
نقل و حرکت پر پابندی
فلسطینیوں کو اپنے ہی وطن میں نقل و حرکت کی آزادی سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔ چیک پوائنٹس، روڈ بلاکس، الگ الگ سڑکیں، رنگ برنگی دیوار اور اجازت نامے کا ایک من مانا نظام انہیں غزہ، مغربی کنارے اور یروشلم کے درمیان آزادانہ سفر کرنے سے روکتا ہے۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ فلسطینیوں، مسلم ہوں یا مسیحی، دونوں کو اکثر اپنے مقامات مقدسہ تک رسائی سے محروم رکھا جاتا ہے جبکہ غیر ملکی سیاح نقل و حرکت کے لیے آزاد ہیں ۔فلسطینیوں کو بیرون ملک کے سفر سے بھی روکا جاتا ہے ۔ 2021 میں اسرائیل نے 10,000 سے زائد فلسطینیوں پر سفری پابندیاں عائد کیں۔
جو لوگ مقبوضہ مشرقی یروشلم کے رہائشی ہیں انہیں الاقصیٰ تک برائے نام رسائی حاصل ہے تاہم انہیں پابندیوں کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر، مسلمان زائرین کو مغربی گیٹ سے احاطے میں داخل ہونے کی اجازت ہے، لیکن فلسطینیوں کو نہیں۔ اسرائیلی حکام بھی باقاعدگی سے اور من مانے طور پر الاقصیٰ کو سیکیورٹی کی وجہ سےبند کر دیتے ہیں۔
اسرائیل کا یہ دعویٰ کہ وہ مقدس مقامات پر سٹیٹس کو کو تسلیم کرتا ہے اور اس کی پابندی کرتا ہے ، یہ دعویٰ مطلقا غلط ہے۔
اسرائیلی حکام ہر روز اردن اور وقف کے حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے حفاظتی انتظامات لگاتے ہیں اور یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کون الاقصیٰ میں داخل ہو گا اور کون نہیں۔
اسرائیل کی طرف سے ان خلاف اور جبر نے عرصہ پہلے اس بحث کو جنم دیا کہ بیت المقدس کا سفر کیا جائے یا نہیں ۔ عرب دنیا میں اس پر زیادہ بحث ہوئی اور 2012 ء میں شیخ یوسف قرضاوی مرحوم نے فتویٰ دیا کہ بیت المقدس کا سفر ممنوع ہے کیونکہ یہ سفر اسرائیل کی ریاست سے تعلقات معمول پر لانے کے مترادف ہے۔
کیا بیت المقدس کا سفر اسرائیل کو فائدہ پہنچاتا ہے؟
مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی حملوں اور چھاپوں کے ساتھ ساتھ فلسطینی عوام پر جبر و تشدد کے علاوہ اس بات پر بھی غور کرنا پڑے گا کہ مقامات مقدسہ کا سفر اسرائیل کو مالی طور پر اسرائیل کو مالی فائدہ پہنچاتا ہے اور نادانستگی میں اسرائیلی پروپیگنڈہ میں معاون ثا بت ہوتا ہے۔سیاحت اسرائیلی معیشت کا اہم حصہ ہے جو اس کی مجموعی جی ڈی پی کا 2.6 فیصد ہے۔
اسرائیل نے 2019 میں ایک تخمینہ جاری کیا جس کے مطابق ایک لاکھ 27 ہزار سے زیادہ سیاح مسلم اکثریتی ملکوں سے اسرائیل آئے۔ 2020 میں اسرائیل نے عرب ریاستوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے کئے جنہیں معاہدات ابراہیمی کا نام دیا گیا، ان معاہدوں کے ذریعے اسرائیل نے ان ریاستوں سے زیادہ سے زیادہ سیاحوں کو اسرائیل کے سفر کی جانب راغب کرنے کی کوشش کی۔
زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو بیت المقدس لانے کا مشن
اسرائیل میں سابق امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمین نے 2021 ٗ میں کہا کہ وہ مسلمان سیاحوں کو زیادہ سے زیادہ بیت المقدس لانے کے لیے کام کریں گے تاکہ مسلمان خود دیکھ سکیں کہ اسرائیل کس طرح مقامات مقدسہ کی حفاظت کرتا ہے۔ اسرائیل کی وزارت سیاحت نے ٹریول ایجنسیوں اور ٹور سروسز کے منظم کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو مقامات مقدسہ کی زیارت کی طرف مائل کریں اور اس کے لیے یہ ٹریول ایجنسیاں اپنی ویب سائٹس پر قرآن کی آیات کے حوالے لکھ کر مسلمانوں کو بیت المقدس کے سفر کی جانب مائل کرتی ہیں۔ ان ویب سائٹس پر مذہبی مقامات کا ذکر ملتا ہے لیکن فلسطین یا فلسطینی عوام کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔کچھ ٹریول ایجنسیاں فلسطینی عوام کا ذکر یوں کرتی ہیں کہ اس سفر کے دوران مقامی افراد کے ساتھ میل جول نہ رکھیں۔ٹریول ایجنٹ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ فیملیز، حتیٰ کہ بچوں کے لیے بھی ایک محفوظ مقام ہے یوں اس دعوے کے ساتھ ٹریول ایجنٹ فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم کی پردہ دری میں شامل ہیں۔
ٹریول ایجنٹوں کی طرف سے مقامات مقدسہ کی زیارت کے لیے اسے ایک روحانی دورہ ثابت کرنا مقامی فلسطینی عوام پر ہونے والے ظلم کو معمول کی بات ٹھہرانے اور اسرائیلی مظالم کو تقویت دینے کی ایک مذموم کوشش ہیں۔
فلسطینیوں نے کئی بار واضح کیا ہے کہ وہ مسلم ملکوں کے زائرین کے دوروں کے حوالے سے کیسا محسوس کرتے ہیں ۔ اکتوبر 2020 میں، مقامی نمازیوں نے متحدہ عرب امارات کے ایک تجارتی وفد ، جس نے اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے ساتھ مسجد اقصیٰ کا دورہ کیا، سے کہا کہ وہ مسجد کے احاطے سے نکل جائیں۔ بیت المقدس کے مفتی اعظم شیخ محمد حسین نے بھی الاقصیٰ کا دورہ کرنے والے اماراتی مسلمانوں کے خلاف بات کی۔
فلسطینی عوام یہ نہیں کہتے کہ وہ فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں کہ کون مسجد میں آسکتا ہے اور کون نہیں؟ ۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ مسلم ملکوں کے زائرین اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات کی بجائے فلسطین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں۔
سفر بیت المقدس اور فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی
دو ہزار پانچ سے فلسطینیوں کا یہ مطالبہ ایک تحریک بائیکاٹ، ڈیویسٹمنٹ، سینکشنز( بائیکاٹ، سرمایہ کاری کی واپسی اور پابندیاں) کی شکل میں سامنے آیا جس میں دنیا بھر کے لوگوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اسرائیل کا بائیکاٹ کر کے فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں۔
فلسطینیوں کی اس اپیل پر دھیان نہ دے کر بیت المقدس کے سفر کا فیصلہ کرنا ایک آپشن ہے لیکن ایک اور پہلو یہ ہے کہ بیت المقدس کے زائرین کا سفر فلسطینی عوام کے ساتھ بین الاقوامی یکجہتی کو فروغ دینے کا بھی موقع بن سکتا ہے۔
اس مقصد کے لیے زائرین فلسطینیوں کی بی ڈی ایس تحریک کی گائیڈ لائنز پر عمل کر کے ان سے یکجہتی بھی دکھا سکتے ہیں اور فلسطینی عوام کو بھی نقصان نہیں پہنچے گا، ان گائیڈ لائنز کے تحت وہ مقبوضہ فلسطین کے ان سیاحتی مقامات سے گریز کریں جو اسرائیل کے زیر انتظام ہیں،تمام اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں اور اسرائیل کی ثقافتی تقریبات میں شرکت سے بھی گریز کریں ۔ اسرائیل کے مقاصد کو فروغ دینے والی ٹریول ایجنسیوں کا بھی بائیکاٹ کریں ۔ بیت المقدس جا کر فلسطینی عوام سے بات چیت کریں، ان کے بارے میں جانیں اور پھر اپنے وطن جا کر فلسطینی عوام کے سفیر بنیں۔