کالم
جمہوری پلاسٹک کے پھل
کچھ چیزیں دیکھنے میں تو بہت اچھی لگتی ہیں لیکن ان سے کسی کو شاذونادر ہی کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔ اس حوالے سے بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں جیسے کسی عمارت کے صحن میں لگا ایک خوبصورت فوارہ جو اپنی تمام تر خوبصورتی کے باوجود ایک نلکے کی طرح کارآمد نہیں ہوسکتا۔
یہ بحث کی جا سکتی ہے کہ ایک فوارہ بیشک نلکے کی طرح کارآمد نہیں لیکن پھر بھی اس سے پانی تو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنی تمام تر خوبصورتی کے باوجود بالکل بیکار ہوتی ہیں، جیسے کہ پلاسٹک کے پھل۔
پلاسٹک کے پھل نہ صرف بیکار ہوتے ہیں بلکہ اگر ان کو اصل پھل سمجھ کر کھانے کی کوشش کی جائے تو یہ آپ کی صحت کے لیے بھی انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
صحافت ہو، سیاست ہو یا کوئی اور شعبہ، ویسے تو فریب نظر پلاسٹک کے پھل ہمیں ہر جگہ نظر آتے ہیں لیکن صحافت اور نام نہاد جمہوری پلاسٹک کے پھلوں میں خاص قربت، نظریاتی ہم آہنگی اور تعاون دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ دونوں اپنی لگی لپٹی باتوں سے عوام کو گمراہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
یہ ایک دوسرے کو اصل پھل ثابت کرنے کے لیے زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں۔ جب صحافت کے پلاسٹک کے پھلوں پر کوئی سوال اٹھائے تو یہ یک زبان ہو کر اسے آزادی رائے اور آزادی صحافت پر حملہ قرار دیتے ہیں۔
اسی طرح جب جمہوری پلاسٹک کے پھلوں کی بدعنوانی پکڑی جائے اور ان کے احتساب کی بات کی جائے تو یہ فوراً جمہوریت پر حملے کا واویلا شروع کر دیتے ہیں۔
جمہوری پلاسٹک کے پھلوں کے آئین اور قانون پر لیکچر اپنی مثال آپ رکھتے ہیں، جمہوریت پر ایسے بھاشن دیتے ہیں کہ ایک دفعہ تو یونانی بھی سن کر پریشان ہو جائیں کہ جمہوریت شاید یونان میں نہیں ان لوگوں کی سیاسی جماعتوں نے دریافت کی تھی۔
لیکن آئین میں درج نوے روز کے اندر نے انتخابات کے معاملے پر ان کی جمہوریت آئینی علم خاموش ہوجاتا ہے۔ پارلیمان میں عدلیہ کے خلاف تقاریر قراردادیں ان کا فیورٹ پاس ٹائم ہے۔ یہ پلاسٹک کے جمہوری پھل شاذونادر ہی آپ کو عوامی مسائل پر بات کرتے نظر آئینگے۔ عوام کے ساتھ تھانوں میں، سرکاری ہسپتالوں اور دفاتر میں جیسا برا سلوک کیا جاتا ہے اس پر انھوں نے کبھی نہ سینیٹ میں اور نہ ہی کبھی قومی اسمبلی میں آنسو بہائے ہیں۔
ان جمہوری پلاسٹک کے پھلوں کے بقول ایک آمر کو ڈیڈی کہنے والا سب سے بڑا جمہوری لیڈر تھا، دولت سے سیاست کو خریدنے والا سب سے بڑا نظریاتی ہے، کرپشن کے الزامات میں ایک دھائی تک جیل میں رہنے والا دراصل عوام کی جنگ لڑ رہا ہے، ملک کی سب سے بڑی عدالت میں جعل سازی کرنے والی قوم کے ضمیر کی آواز ہے اور ایک مشکوک وصیت کی بدولت پارٹی کا چیئرمین بنے والا شخص ہی “سلیکٹڈ” لوگوں کو بے نقاب کر سکتا ہے۔
جمہوری پلاسٹک کے پھلوں میں سے چند ایک منفرد مقام رکھتے ہیں، کسی کی چادر اوڑھنے کا اور کسی کے بالوں کا سٹائل مشہور ہے تو کوئی ریاست پاکستان کے خلاف زہر اگلنے میں اپنی مثال آپ ہے۔
لیکن ایک بات کا کریڈٹ ان کو دینا پڑے گا کہ یہ ابھی ملک پر جمہوریت کے نام پر حکومت کر رہے ہیں ،اور جمہور کو ووٹ کا حق دینے کا فصلہ کر نے پر عدالت پر حملہ آور ہیں۔
اب اگلے چند دن تک آپ صحافت کے پلاسٹک کے پھلوں کو دیکھیے گا کہ کیسے یہ اپنے پیٹ بھائیوں کا دفاع کرتے ہیں۔
-
کھیل11 مہینے ago
ورلڈ کپ میں ٹیم کی بدترین کارکردگی، سری لنکا نے اپنا کرکٹ بورڈ برطرف کردیا
-
کھیل1 سال ago
کم عمر لڑکی کی سیکس ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے پر ریئل میڈرڈ کے 3 کھلاڑی گرفتار
-
تازہ ترین4 مہینے ago
چیئرمین پی سی بی دو طرفہ سیریز پر بات کرنے آئرلینڈ پہنچ گئے
-
ٹاپ سٹوریز1 سال ago
آئی ایم ایف بورڈ سے معاہدہ منظور،1.2 ارب ڈالر کا فوری اجرا ممکن، باقی رقم دو سہ ماہی جائزوں سے مشروط
-
پاکستان4 مہینے ago
مریم نواز سے گورنر پنجاب کی ملاقات،صوبے کی ترقی کے لیے اہم امور پر تبادلہ خیال
-
کالم1 سال ago
اسلام میں عبادت کا تصور
-
ٹاپ سٹوریز4 مہینے ago
اسحاق ڈار سے امریکی سفیر کی ملاقات، سکیورٹی اور اقتصادی تعاون سمیت دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال
-
تازہ ترین7 مہینے ago
بلا ٹرکاں والا سے امیر بالاج تک لاہور انڈر ورلڈ مافیا کی دشمنیاں جو سیکڑوں زندگیاں تباہ کرگئیں