Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

’ کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو‘

Published

on

آج کل پاکستان میں عدلیہ سمیت بہت سے اداروں میں تاریخ پر تاریخ رقم ہو رہی ہے،جمعرات کو پاکستان کی عدالتی تاریخ میں تیزترین انصاف کی مثال قائم ہوئی، جب سپریم کورٹ میں ایک کیس دائر ہوتے ہی فوری طور پر بنچ بنا، کچھ دیر بعد ہی ایک  ملزم کو طلب کر لیا گیا،وہ ملزم جس کا ریمانڈ احتساب عدالت دے چکی تھی،معزز جج حضرات ملزم کی آمد پر خوشی سے نہال نظر آئے۔ چند منٹ میں فیصلہ صادر کر کے نہ صرف نیب کو غلط قرار دیا گیا بلکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھی اپنا فیصلہ ختم کر کے نئے سرے سے فوری انصاف کی فراہمی کے احکامات صادر کر دیئے گئے۔

بات یہیں ختم نہیں ہوئی،حکم صادر کیا گیا کہ ملزم کو عدالت کے مہمان کی حیثیت سے پولیس اپنے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرائے، دس افراد سے ملاقات کی اجازت مرحمت کی گئی،اگلے روز (آج جمعہ کو) نئی عدالتی تاریخ رقم ہوئی،سرسری سماعت میں ایک ایسے شخص کو دوہفتے کی ضمانت مل جاتی ہے جو ریمانڈ پر تھا اور اس پرکرپشن کا الزام تھا۔ کوئی بھی اعتراض نہ اٹھائےاگر یہ سہولت تمام پاکستان کے لئے میسرہو۔

ریکارڈ ساز انصاف نے یہیں بس نہ کی،اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات عدیم النظیرہیں،حکم دیا گیا کہ کسی بھی کیس میں گرفتاری نہیں کی جا سکتی ۔یہی عدالتیں ہیں جن میں ہزاروں مقدمات زیر التوا ہیں اورسائلین کی بہت بڑی تعداد دہائیوں سے مقدمہ کاز لسٹ میں آنے کا انتظار کر رہی ہے، بہت بار خبریں آئیں کہ انصاف کے لیے ترستے سائل کی موت کے بعد انصاف جاگ گیا لیکن اس انصاف کا کیا فائدہ جس کے لیے زندگی سے گزر جانا لازم ہو۔

یہ ایسا ملک ہے جس میں معزز جج صاحبان مقدمات سننے اور ترازو عدل پر موسم گرما کی چھٹیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس ملک میں اب ایک ایسی شخصیت بھی ہے جس کے لیے چھٹی کی پروا ہے نہ وقت کی، بلکہ اس کے مقدمے میں مخالف وکیل کو سنا ہی نہیں جاتا۔ پھر بھی خوشی کا ایک پہلو ہے کہ اس ملک میں تیز ترین انصاف کی مثال تو قائم ہوئی۔یہ مثال درست ہے یا غلط، اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیرالتواء مقدمات کی تعداد 52,450 ہے اورپاکستان کی عدلیہ کا نمبر انصاف فراہم کرنے والی عدلیہ میں غالبا 130کے لگ بھگ ہے، جو کسی بھی قوم کے لئے سوچنے کا مقام ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخراس کی وجہ کیا ہے؟ یہ ایسا سوال ہے جس پر کبھی حکومت وقت نے غور کیا نہ جوڈیشل ایکٹوزم  کی شکار عدلیہ نے خود احتسابی کی کوشش کی۔

ہر کوئی اپنی دھن میں مگن، ہر کسی کے اپنے مفادات ہیں، جسٹس منیر کا تسلسل ۔کب تک؟ اس کا جواب کم از کم میرے پاس تو نہیں،ایک بات طے ہے کہ کوئی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک عدلیہ انصاف فراہم کرنا شروع نہیں کردیتی۔برطانیہ کے ونسٹن چرچل کا تاریخی جملہ ہر کسی نے پڑھا بھی ہوگا اور ذہن کے کسی نہاں خانے میں محفوظ بھی ہوگا، اسے دہرانے میں مضائقہ نہیں۔

جنگ کے دوران جب چرچل سے کسی نے پوچھا کہ کیا ہم جنگ جیت جائیں گے؟ تو انھوں نے اس کے جواب میں ایک سوال کیا کہ کیا برطانیہ کی عدالتیں انصاف کر رہی ہیں؟ سوال کرنے والے کا جواب ‘ہاں’ میں تھا،اس پر چرچل نے کہا کہ اب میں یقین سے کہہ سکتا ہوں، ہم جنگ جیت جائیں گے کیونکہ ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں۔

جب اس ملک کی شناخت کی بات ہوتی ہے تو بڑے فخر سے کہا جاتا ہے یہ ملک کلمے کی بنیاد پر بنا، جب ملک کی جوہری طاقت کا ذکر ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ ہم عالم اسلام کی واحد جوہری طاقت ہیں، کبھی کسی نے سوچا کہ انصاف کی فراہمی تو اسلام کا پہلا سبق ہے ۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی یھم اجمعین کی مثالیں موجود ہیں،ان مثالوں پروہ تو عمل کر رہے ہیں جنہیں ہم غیر مسلم کہتے ہیں لیکن ہم نہیں کر رہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس قابل نہیں کہ ہم انصاف فراہم کر سکیں؟ اگر نہیں ہیں تو ہمیں انصاف کو بدنام کرنے کا کوئی حق نہیں۔چاہئے تو یہ ہے کہ ہم چند ججز ایسے ممالک سے مستعار لے لیں جہاں انصاف فراہم کیا جارہا ہے شاید اس طرح پاکستان میں عام آدمی کو انصاف مل جائے۔

ایسا بھی نہیں کہ ہماری عدلیہ نے کبھی انصاف ہی نہیں کیا، بہت سے اچھے فیصلوں کی نظیر موجود ہے،بدقسمتی سے انکی تعداد زیادہ نہیں، جسٹس کارنیلیئس اورجسٹس بھگوان داس جیسے جج ہماری عدلیہ میں ہی تھے لیکن جسٹس مولوی مشتاق،جسٹس قیوم،اور جسٹس منیر جیسوں کی بھی کمی نہیں رہی۔

بھاگ بھاگ کر پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے بھی موجود ہیں اور ملازمت کو ٹھوکر مارنے والوں کی بھی کمی نہیں۔افسوس کہ آج تک موجودہ حکومت سمیت ہماری کسی بھی حکومت نے، چاہے وہ کسی طاقتور آمر کی ہو یا عوام کے ووٹوں سے منتخب کمزورحکومت، کسی نے بھی نظام عدل کو درست کرنے کے لئے کوئی کام نہیں کیا،کوئی حکومت مرضی کے جج لگانے پر زورلگاتی رہی، تو کسی حکومت نے ججوں کی مراعات اور تنخواہیں بڑھا کر ہمدردی لینے اورساتھ ملانے کی کوشش کی۔

کوئی برطانوی انصاف کی مثالیں دیتا رہا اور کوئی ریاست مدینہ کی،باتیں تو بہت ہوئیں، انصاف کی فراہمی کے لیے ٹھوس بنیادوں پر کام نہ ہوا، آج تک ہم مثالوں تک محدود ہیں۔

اب بھی وقت ہے کہ عدل کی بنیاد رکھ لی جائے، ورنہ ہ تاریخ کا حصہ بن جائیں گے اور نام بھی نہ ہوگا داستانوں میں۔ اگر ہم نظام انصاف کی درست معنوں میں اصلاح میں کامیاب رہے تو آئندہ کسی کی ہمت نہیں ہوگی کہ وہ آئین، ریاست، عدلیہ یا ملکی تشخص کو داؤ پر لگائے۔ عدالتوں کے فیصلے بھی قوم کے لیے باعث افتخار ہوں گے اور عدلیہ کا وقار کبھی داؤ پر نہیں لگے گا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو انصاف کی فراہمی کے حوالے سے ہمارا ملک عالمی رینکنگ میں آخری نمبر پر ہی رہے گا۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین