Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

معیشت سے چمٹی جونکیں

Published

on

وطن سے محبت ہر انسان کے دل میں بسی ہوتی ہے، کوئی کسی کی حب الوطنی پر انگلی اٹھا سکتا ہے اور نہ کسی کو یہ حق حاصل ہے۔ پاکستان سے محبت ہر پاکستانی کی طرح میرے دل میں بھی بستی ہے اور کیوں نہ ہو اس ارض وطن سے محبت؟ ۔

اس ملک کو ہم تحفہ خداوندی سمجھتے ہیں،جو وسائل سے مالا مال لیکن بحیثیت قوم ہماری شامت اعمال کا شکار ہے۔ 8 لاکھ 81 ہزار 9 سو 13 مربع کلومیٹر پر محیط یہ ارض پاک، ایک ہزار چھیالیس کلومیٹر طویل ساحلی پٹی، بھارت، چین، ایران، تاجکستان، افغانستان اور اومان کے ساتھ ہمسائیگی ، گوادر بندرگاہ کے ذریعے یورپ سمیت 60 ملکوں کی منڈیوں تک پہنچ، 8 ہزار 5 سو سال پرانی تہذیبیں اس ارض خداداد کی شناخت ہیں۔

دنیا کی چھٹی بڑی فوج، ایٹمی طاقت، سیاحت کے لیے دلکش و دلربا شمالی علاقہ جات، توانائی اور معدنیات سے مالا مال صحرا تھرپارکر اور صوبہ بلوچستان، پانچ بڑے اور درجنوں چھوٹے دریا اس ملک کی اہم ترین جغرافیائی خصوصیات ہیں۔

وسائل اس قدر ہیں کہ شمار میں ہی نہیں آسکتے، سالانہ 1 کروڑ 40 لاکھ ایکڑ فٹ پانی کا بہاؤ، 4 خوبصورت موسم، 2 کروڑ 41 لاکھ ہیکٹر قابل کاشت زرعی رقبہ، دنیا کی بہترین گندم، چاول، گنا، دالیں اگانے والی زمین، پتوکی سے رحیم یار خان تک لاکھوں ایکڑ وائٹ گولڈ کپاس اگانے والا زرعی رقبہ، 19 کروڑ 59 لاکھ لائیو سٹاک، 4 کروڑ 88 لاکھ ٹن دودھ کی سالانہ پیداوار، 27 ہزار میگاواٹ طلب کے مقابلے میں 37 ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت کے کارخانے، 3 لاکھ میگا واٹ شمسی توانائی اور صرف دریائے سندھ پر 60 ہزار میگاواٹ پن بجلی کی صلاحیت اس ملک کے قیمتی اثاثے ہیں۔

سونے، تانبے، لوہے، کوئلے، گیس اورتیل کے ذخائر، قیمتی پتھروں اورنمک کے کئی کئی میلوں لمبے پہاڑی سلسلے، الغرض ان نعمتوں اور وسائل کا احاطہ ممکن نہیں۔

ان وسائل اور نعمتوں کی طویل فہرست کے بعد یہ سوالات ضرورسر اٹھاتے ہیں کہ اس قدر وسائل کے باوجود وطن عزیزغریب، مقروض، مجبور، محکوم اور خستہ حال کیسے؟

زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم امپورٹ کیوں کی جاتی ہے، چینی، یوریا کھاد، دالیں سب درآمد کی جاتی ہیں۔ وائٹ گولڈ کپاس بھی امپورٹ ہوتی ہے ، بلکہ حالات اب ایسے بن چکے کہ کپڑا تیار کرنے والی ملیں بھی بند ہو رہی ہیں، دودھ پیدا کرنے والا چوتھا ملک ،بین الاقوامی  کمپنیاں یہاں سے اربوں روپے قیمتی زرمبادلہ کما کر باہر بھجواتی ہیں مگر کسان آج بھی بدحال ہے۔ 19 کروڑ لائیو سٹاک تو ہے لیکن نہ تو گوشت ایکسپورٹ ہوتا ہے نہ ہی ڈیری مصنوعات،ایسا کیوں؟

سیاحتی مقامات ایسے کہ سوئٹزر لینڈ کا حسن ماند پڑ جائے لیکن ٹورازم نہ ہونے کے برابر ہے،  بلوچستان اور تھرپارکر انرجی، معدنیات سے مالا مال لیکن ان علاقوں میں غربت ناچ رہی ہے، 5 دریاؤں کی سرزمین پنجاب کا صوبہ ہرسال یا تو سیلاب میں ڈوب جاتا ہے یا پانی بحران کی زد میں رہتا ہے، یہ دو انتہائیں کیسے؟

دریاؤں میں 140 ملین ایکڑ فٹ بہنے والے پانی میں سے 27 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں ضائع ہوتا ہے،  حالانکہ 1 ملین ایکڑ فٹ پانی کی مالیاتی قدر 1 ارب ڈالر ہے، کہنے کو یہ ملک قدیم ترین تہذیبوں کی سرزمین ہے لیکن ہڑپہ اور موہنجوداڑو آثار قدیمہ کی خستہ حالی اور لمحہ بہ لمحہ مٹتے تاریخی نشان ہمارا منہ چڑا رہے ہیں۔

دعوی تو یہ ہے کہ ہم سب سے بڑا آبپاشی نظام رکھتے ہیں لیکن کھیت کھلیان نہری پانی کم ملنے کی وجہ سے  پیاسے رہ جاتے ہیں، کیا یہ حیرت انگیز نہیں کہ کئی حوالوں سے خود کفیل یہ ملک 45 ہزار ارب روپے کے قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ ایک خود مختار ایٹمی پاور آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہے، قرض دینے والے ساہوکاروں کا ہر حکم بجا لاتا ہے۔

لاکھوں میگاواٹ سستی اور مفت بجلی کی صلاحیت کے باوجود اس وطن کے 98 فیصد باسی اپنے گھر روشن رکھنے کیلئے 24 سے 40 روپے فی یونٹ ادا کرنے پر مجبور ہیں،پھر بھی گھنٹوں لوڈشیڈنگ کے اندھیروں میں رہتے ہیں، توانائی کے خزانے ہونے کے باوجود 14 سے 18 ارب ڈالر سالانہ کا تیل درآمد کیا جاتا ہے اورجب آئی ایم ایف اشارہ کرتا ہے تو اکٹھے 30 روپے فی لٹر اضافہ کر دیا جاتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ملک کا بڑا رقبہ شیل گیس اور سندھ کے پی اور بلوچستان قدرتی گیس سے مالا مال ہیں لیکن ہم قطر اور نہ جانے کن کن ملکوں سے ایل این جی امپورٹ کرتے ہیں پھر بھی نہ تو  کارخانوں کو گیس مل رہی ہے نہ عام آدمی کے گھروں کے چولہے گرم رکھے جا سکتے ہیں، بجلی کی پیداوار کے لیے ایندھن ہی نہیں۔

حقیقت یہ بھی ہے کہ ریکوڈک، سیندک اور اس طرح کے کئی علاقے اپنے دامن میں  سونے اور تانبے کے خزانے چھپے ہوئے ہیں لیکن ان کو نکالنے کی سبیل نہیں، پچہتر برس کے بے سمت سفر کے بعد بھی ہم رستے کی تلاش میں ہیں۔

خوشاب، چکوال اور جہلم سے ملحقہ علاقوں میں 3 سو کلو میٹر لمبا 82 منرلز اور وٹامن سے بھرپور نمک کا پہاڑی سلسلہ ہے ،جس سے ہم تو پورا فائدہ نہ اٹھا پائے الٹا دشمن ملک بھارت  جہاں نمک موجود ہی نہیں، پنک سالٹ اور ہمالین سالٹ کے نام پر یورپ میں پاکستانی نمک فروخت کر رہا ہے۔

دنیا کا مشہور خوشبودار اور ذائقے میں کمال باسمتی چاول پاکستانی پنجاب میں پیدا ہوتا ہے لیکن دنیا بھر میں میں یہ بھی انڈین چاول کے نام سے مشہور ہے، ایسا کیوں ہے؟ جواب موجود ہے لیکن حقائق بہت تلخ ہیں۔

ان محرومیوں، بحرانوں اور اندھیروں کا ذمہ دار 2 فی صد طبقہ ہے، بشری کوتاہیوں سے سے اس دنیا میں کوئی بھی پاک نہیں، 98 فیصد عوام جو کچھ بھی کر رہے ہیں مکمل لگن اور محنت سے کر رہے ہیں،مزدور خون پسینہ بہا رہا ہے، کسان مٹی میں مٹی ہو رہا ہے، کان کن جفاکش ہے، سپاہی سرحدوں پرچاق و چوبند کھڑا ہے،استاد بچوں کو تعلیم دے رہا ہے، پھر بھی مشکل سے گذر اوقات کر رہا ہے، جبکہ دوسری طرف حکومت اور ریاست سے وابستہ ہر اہم ذمہ دار پیٹرول  اور بجلی  مفت استعمال کرتا ہے ،ملک کو سرکا دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔

دراصل اس ملک کے ساتھ قیام کے ساتھ ہی المیوں کی ایک داستان شروع ہوئی،پہلے تو نوزائیدہ ملک کے بانی کی بے وقت وفات، پہلے وزیراعظم کا قتل، بیوروکریٹ کا گورنر جنرل کے عہدے تک پہنچنا اور پھر معذوری کے باوجود چمٹے رہنا ملک کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا سبب بنا جو ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں جاری رہی، اس سیاسی کشاکش اور مفادات کی لڑائی میں ملک کہیں پیچھے رہ گیا اور ملک کے رہنما تصور ہونے والوں کی حالت یہ ہویہ کہ لڑتے لڑتے ملک کو زخمی کرگئے۔

جب حکمران طبقے کو مفت بجلی، پٹرول ملے تو وہ کیوں سوچیں کہ عوام کو کتنے میں پڑتا ہے، جب اشرافیہ کے پاس دولت کی ریل پیل ہو تو انہیں آٹے دال کا بھاؤ کنٹرول کرنے سے کیا غرض؟ جہاں رشوت اور کمشن کی خاطر منصوبوں کو تاخیر کا شکار کر کے اربوں کمائے جا ستے ہوں ہوں تو تعمیر ترقی رکاوٹ کا شکار ہی ہوگی۔

جہاں بیوروکریٹس کھرب پتی بن جائیں اوران کے گھروں کے تہہ خانوں میں سونے، چاندی، ہیروں اور نوٹوں کے ڈھیر برآمد ہوں، جہاں سیاستدان ٹھیکوں میں اربوں روپے کمیشن لیتے ہوں، جہاں سمندر سے نوٹوں سے بھری لانچیں پکڑی جائیں،جہاں اعلیٰ عہدیداروں کو لوٹ مار کی رقم سے بیرون ملک جائیدادیں بنانے سے دلچسپی ہو، اس ملک کا مقدر پسماندہ رہنا ہی ہے۔

جس ملک میں اجناس کو ایکسپورٹ کے نام پر چھپایا جاتا ہواور پھرمصنوعی بحران پیدا کر کے ملک کے اندر ہی رکھی چینی کو امپورٹ ظاہر کر کے اربوں روپے لوٹے جاتے ہوں،تیل مافیا کو فائدہ پہنچانے کے لیے قیمتیں بڑھائی جاتی ہوں، فرنس آئل کا ذخیرہ نکالنے کے لیے پابندی کے باوجود اجازت دی جاتی ہو، سستی بجلی کے لیے پن بجلی منصوبوں کے بجائے کبھی رینٹل تو کبھی ایل این جی منصوبوں کو بجلی بحران کا حل بتایا جاتا ہو، تو وسائل کا ضیاع تو ہونا ہے اور وہ ہو رہا ہے۔

مختلف تنازعات میں بین الاقوامی سطح پر رشوت لے کر مقدمے ہارے جاتے ہوں،جس ملک کی معیشت کو ہرسمت سے جونکیں چمٹی ہوں ،ایسے ملک  ترقی نہیں کیا کرتے بلکہ سلامتی اور بقا کی جنگ لڑتے ہیں۔ یاد رکھیں وقت اب بہت ہی کم رہ گیا ہے، جن قوموں کی خودمختاری چھن جائے ان کی شناخت بھی باقی نہیں رہتی۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین