کالم
عشق اور عقل (5)
چالیس چراغ عشق میں آگے چل کر مولانا روم فرماتے ہیں بلند و برتر اور ہر طرح کے نقص سے پاک ذاتِ خدا، سے محبت کرنا تو بظاہر آسان سی بات ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ مشکل انسان کا اپنے ابنائے جنس سے محبت کرنا ہے، جس میں ہر طرح کی کمزوریاں اور خامیاں پائی جاتی ہیں، یاد رکھو، انسان اسی کو جان سکتا ہے جس سے وہ محبت کرنے پر قادر ہو۔محبت کے بغیر کوئی معرفت، معرفت نہیں ہوتی۔ جب تک ہم اللہ کی تخلیق سے محبت کرنا نہیں سیکھتے، تب تک ہم اس قابل نہیں ہوسکتے کہ اللہ سے حقیقی محبت کرسکیں، اسکو جان پائیں۔
ایک اور جگہ فرماتے ہیں اصل ناپاکی اندر کی نجاست ہے۔باقی سب کچھ آسانی سے دھل جاتا ہے لیکن آلودگی کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو پاکیزہ پانی سے صاف نہیں ہوتی، وہ نفرت اور تعصب کے دھبے ہیں، جو روح کو آلودہ کردیتے ہیں۔ تم ترکِ دنیا اور روزے رکھنے سے بدن کا تزکیہ توکرسکتے ہو لیکن قلب کی پاکیزگی صرف محبت سے حاصل ہوگی۔ پوری کائنات انسان کے اندر موجود ہے۔ تم اور تمہارے ارد گرد جو کچھ تمہیں دکھائی دیتا ہے،یہی تمام چیزیں خواہ تمہیں پسند ہوں یا ناپسند، تمام کردار خواہ تم ان کیلئے رغبت محسوس کرو یا کراہت، یہ سب تمہارے اپنے اندر کسی نہ کسی درجے میں ملیں گے چنانچہ، شیطان کو باہر مت دیکھو بلکہ اپنے اندر تلاش کرو، شیطان کوئی غیر معمولی قوت نہیں جو تم پر باہر سے حملہ آور ہو بلکہ تمہارے اندر سے ابھرنے والی معمولی سی خواہش کا نام ہے۔اگر تم محنت اور دیانت سے اپنی ذات کے روشن و تاریک گوشوں کو دیکھنے کے قابل ہوجاؤ تو تجھ پر عظیم اور برتر شعور کا دریچہ کھلے گا۔ جو شخص اپنے آپ کو جان لے، وہ اپنے رب کو بھی پہچان لیتا ہے
مولانا روم فرماتے ہیں اگر تم چاہتے ہو کہ لوگ تجھ سے اچھا برتاؤ کریں تو اسکے لئے پہلے تمہیں اس رویے کو تبدیل کرنا ہوگا جو تم اپنے آپ کے ساتھ روا رکھتے ہو۔ جب تک تم اپنے آپ سے پورے خلوص سے محبت کرنا نہیں سیکھ لیتے، بہت مشکل ہے کہ تمہیں محبت نصیب ہو ، جب یہ مرتبہ حاصل ہوجائے تو پھر ہر اس کانٹے کیلئے بھی شکر گذار رہو جو تمہارے راستے میں پھینکا جائے کیونکہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ عنقریب تم پہ پھول بھی نچھاور ہونگے۔اس بات پر پریشان مت ہو کہ راستہ کہاں لیکر جائے گا بلکہ توجہ اپنے پہلے قدم پر رکھو، یہی تمہاری زمہ داری اور یہی سب سے مشکل کام ہے۔ جب پہلا قدم اٹھالیا،تو پھر اسکے بعد ہر شئے کو اپنے قدرتی انداز میں کام کرنے دو اور تم دیکھو گے کہ راستہ خودبخود کھلتا جائے گا۔بہاؤ کے ساتھ مت بہو بلکہ خود لہر بن جاوجسکا اپنا بہاؤ ہوتا ہے
ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ اس نے ہم سب کواپنی صورت پر پیدا کیا لیکن اسکے باوجود ہم سب ایک دوسرے سے مختلف اور یکتا و ممتاز ہیں۔کوئی بھی دو انسان ایک جیسے نہیں،کوئی بھی دو دل یکساں طور پر نہیں دھڑکتے۔ اگر وہ چاہتا کہ ہم سب ایک جیسے ہوں، تو وہ انکو ایک جیسا ہی بناتا۔ چنانچہ اب ان اختلافات کی توہین و تنقیص کرنا اور اپنے افکار کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرنا دراصل پروردگارِ عالم کی قضا و قدر اور بلند پایہ حکمت کی توہین کے مترادف ہے۔ جب اسکا سچا چاہنے والا کبھی میکدے میں جا پہنچے، تو وہ میکدہ اسکے لئے محراب و مصلے کی صورت اختیار کرلیتا ہے لیکن اگر کوئی بہکا ہوا مئے خوار مسجد میں بھی چلا جائے تو وہ اسکے لئے میخانہ بن جاتی ہے۔جو کچھ بھی ہم کرتے ہیں اس میں اصل کردار تو ہمارے دل کا ہے، ہمارے اندر کا ہے ، ظاہر کا نہیں۔صوفی لوگوں کو حلیئے اور وضع قطع سے نہیں جانچتے۔ جب صوفی کسی پر اپنی نگاہ جماتا ہے تو وہ دراصل اپنی دونوں آنکھوں کو بند کرچکا ہوتا ہے،تیسری آنکھ سے(جو اسکے قلب میں ہے) اس منظر کے اندر کا جائزہ لے رہا ہوتا ہے۔
مولانا روم نے فرمایا زندگی تو ادھارکی مانند ناپائیدار ہے،حقیقت کا ایک دھندلا سا خاکہ اور نقل ہے۔ صرف بچے ہی اصل حقیقت کی بجائے کھلونوں سے بہلتے ہیں لیکن اسکے باوجود، لوگ کھلونوں پر فریفتہ ہیں یا بے قدری سے انہیں توڑ ڈالتے ہیں۔ اس زندگی میں ہر قسم کی انتہاؤں سے دور رہو،کیونکہ انتہاپسندی تمہارے اندرونی توازن کو بگاڑ دیتی ہے۔ صوفی اپنے رویوں میں انتہا پسند نہیں ہوتے بلکہ متوازن اور نرم ہوتے ہیں۔ پروردگار کی سلطنت میں انسان کوخاص مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ اللہ نے کہا” میں نے اسکے اندر اپنی روح میں سے پھونک دیا“۔ ہم میں سے ہر ایک کو اس قابلیت سے پیدا کیا گیا کہ وہ اسکا خلیفہ بن سکے۔ اپنے آپ سے پوچھو کہ کیا تمہارے اعمال اسکے خلیفہ جیسے ہیں؟ یاد رکھو کہ ہم پر لازم ہے کہ ہم اس رحمانی روح کو (جو ہم میں پھونکی گئی ہے) کو اپنے اندر دریافت کریں ، پہچانیں اور اسکے ساتھ جئیں۔
مولانا روم نے فرمایا کہ جنت اور دوزخ کے بارے میں فکرمند رہنا چھوڑدو کیونکہ جنت اور دوزخ یہیں ہیں اسی لمحہِ موجود میں۔ جب بھی ہم محبت محسوس کرتے ہیں، جنت کا ایک زینہ طے کرتے ہیں اور جب بھی نفرت ، حسد اور جھگڑے میں پڑتے ہیں، دوزخ کی لپٹوں کی زد میں ہوتے ہیں۔کیا اس سے بھی بدتر کوئی دوزخ ہوسکتا ہے جب کوئی شخص اپنے دل کی گہرائیوں میں یہ احساس پائے کہ اس سے کوئی بیحد غلط اور بُرا کام سرزد ہوگیا۔ اس شخص سے پوچھ کردیکھو وہ تمہیں بتائے گا کہ دوزخ کسے کہتے ہیں(حالانکہ یہ پشمانی ہے،جسے حضورﷺ نے توبہ کی اعلی ترین صفت کہا) (راقم)۔ کیا اس سے بڑی بھی کوئی جنت ہوسکتی ہے جب کسی شخص پر خاص لمحات میں وہ سکینت نازل ہوتی ہے جب اس پر کائنات کے دریچے کشادہ ہوتے ہیں اور انسان اپنے رب کے قرب کی حالت میں ابدیت کے اسرار سے ہمکنار ہوتا ہے؟ پوچھو اس شخص سے، وہ تمہیں بتائے گا کہ جنت کیا ہوتی ہے۔
پھر فرمایا کائنات ایک وجودِ واحد ہے۔یہاں ہر کوئی اپنے واقعات کے غیر مرئی دھاگوں سے ایک دوسرے کے ساتھ لپٹا ہوا ہے۔ ہم سب جانے انجانے میں ایک خاموش مکالمے کا حصہ ہیں۔کسی کو دکھ نہ دو، نرمی اور شفقت کا برتاؤ رکھو، کسی کی پیٹھ پیچھے اسکی برائی مت کرو خواہ بے ضرر سا جملہ ہی کیوں نہ ہو۔ الفاظ جو ایک بار ہماری زبانوں سے نکل جائیں، وہ کبھی فنا نہیں ہوتے بلکہ لامحدود وسعت میں ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوجاتے ہیں اور اپنے مقرر وقت میں واپس ہم تک آن پہنچتے ہیں۔ بالآخر،کسی بھی آدمی کی تکلیف، ہم سب کو ایک اجتماعی دکھ میں مبتلا کرجائے گی،کسی بھی آدمی کی خوشی ہم سب کے ہونٹوں پر مسکان کا باعث بنے گی۔
مولانا رومی نے لکھا کہ یہ دنیا اس برفانی پہاڑ کی طرح ہے جہان بلند کی گئی ہر آواز،بازگشت بنکر واپس پلٹتی ہے۔ جب بھی تم کوئی اچھی یا بری بات کرو گے، تم تک واپس پلٹ کر ضرور آئے گی۔چنانچہ اب اگر تم کسی ایسے شخص کیلئے بُرے کلمات منہ سے نکالو، جو ہر وقت تمہارا بُرا سوچتا رہتا ہے، تو یہ اس معاملے کو اور بھی گھمبیر بنادے گا، تم منفی قوتوں کے ایک نہ ختم ہونے والے چکر میں گھومتے رہو گے۔ بجائے اسکے کہ تم دوسروںکے لئے کچھ بُرا کہو، چالیس دن تک اسکے لئے اچھا سوچو، اچھی بات منہ سے نکالو، تم دیکھنا کہ چالیس دن بعد ہر شئے مختلف محسوس ہوگی کیونکہ تم پہلے جیسے نہیں رہے، اندر سے تبدیل ہوگئے۔ ماضی ایک تعبیر ہے ایک نقطہ نظر ہے، جبکہ مستقبل مایا (Illusion) ہے،سراب ہے۔ دنیاخطِ مستقیم کی شکل وقت کے دھارے سے نہیں گذرتی جو ماضی سے مستقبل کی طرف جا رہا ہو، بلکہ وقت ہمارے اندر سے بتدریج پھیلتے ہوئی لامتناہی قوسوں (Spirals) کی صورت میں گذرتا ہے۔ ابدیت لامحدود وقت کو نہیں بلکہ وقت سے ماورا ہونے کا نام ہے۔اگر تم ابدی روشنی کے حامل ہونا چاہتے ہو تو ماضی اور مستقبل کو اپنے ذہن سے نکال دو اور فقط لمحہِ موجود میں باقی رہو۔ یہ لمحہ ِ موجود ہی سب کچھ تھا اور سب کچھ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ تقدیر کا یہ مطلب نہیں کہ تمہاری زندگی کو مکمل طور پر باندھ کر رکھ دیا گیا۔ ہر بات کو مقدر پر چھوڑ دینا اور کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی کوئی کوشش نہ کرنا ،محض جہالت کی علامت ہے۔کائناتی موسیقی ہر طرف سے پھوٹ رہی ہے، اسکے چالیس مختلف درجات ہیں۔ تمہارا مقدر وہ درجہ ہے جس پر تم اپنا ساز بجا رہے ہو۔ہوسکتا ہے کہ تمہارا ساز تبدیل نہ کیا جاسکے لیکن اس ساز سے جو نغمہ اور جو دھن تم نکالتے ہو اسکا انحصار صرف اور صرف تم پر ہے۔
-
کھیل12 مہینے ago
ورلڈ کپ میں ٹیم کی بدترین کارکردگی، سری لنکا نے اپنا کرکٹ بورڈ برطرف کردیا
-
کھیل1 سال ago
کم عمر لڑکی کی سیکس ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے پر ریئل میڈرڈ کے 3 کھلاڑی گرفتار
-
تازہ ترین6 مہینے ago
چیئرمین پی سی بی دو طرفہ سیریز پر بات کرنے آئرلینڈ پہنچ گئے
-
پاکستان6 مہینے ago
مریم نواز سے گورنر پنجاب کی ملاقات،صوبے کی ترقی کے لیے اہم امور پر تبادلہ خیال
-
ٹاپ سٹوریز1 سال ago
آئی ایم ایف بورڈ سے معاہدہ منظور،1.2 ارب ڈالر کا فوری اجرا ممکن، باقی رقم دو سہ ماہی جائزوں سے مشروط
-
کالم1 سال ago
اسلام میں عبادت کا تصور
-
ٹاپ سٹوریز5 مہینے ago
اسحاق ڈار سے امریکی سفیر کی ملاقات، سکیورٹی اور اقتصادی تعاون سمیت دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال
-
پاکستان7 مہینے ago
پنجاب حکومت نے ٹرانسفر پوسٹنگ پر عائد پابندی ہٹالی