Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

بینظیر کا مخدوم vs عمران کا مخدوم

Published

on

یہ 2002ء کے عام انتخابات کے بعد کی بات ہے، جنرل پرویز مشرف کی نگرانی میں ہونے والے ان انتخابات میں کنگز پارٹی مسلم لیگ قاف، اتحادیوں ایم کیو ایم وغیرہ سمیت قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل نہ کرسکی اور اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد اے آرڈی اورمذہبی جماعتوں پر مشتمل "سیمی اپوزیشن” متحدہ مجلس عمل کا پلڑا بھاری رہا۔

جنرل پرویز مشرف کو اپنی مرضی کی حکومت بنانے کے لیے آ8 سے 10 ارکان کی ضرورت تھی۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون اور مجلس عمل کی جماعتیں اپوزیشن میں موجود تھیں۔

 جنرل مشرف 12 اکتوبر 1999ء کو نوازشریف کا تختہ الٹ کر اقتدار میں آئے تھے اس لیے ان کی پارٹی سے تو بات نہیں ہوسکتی تھی تاہم وہ پیپلزپارٹی کے لیے کچھ نرم گوشہ رکھتے تھے، تاہم یہ نرم گوشہ تھا مائنس بینظیر۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے الیکشن سے قبل بینظیر بھٹو کو بھی واپس نہ آنے دیا ان کی پاکستان پیپلزپارٹی پر پابندی بھی لگائی۔

انتخابی میدان کو کھلا نہ چھوڑنے کے لئے بینظیر بھٹو کو مجبوری میں پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے نام سے مخدوم امین فہیم کی صدارت میں ایک نئی پارٹی رجسٹر کروانا پڑی اور نوازشریف کی طرح جلاوطنی میں ہی انہوں نے اپنی پارٹی کو انتخابات میں اتارا۔

اس کا فائدہ جنرل مشرف کو یہ ہوا کہ پیپلزپارٹی بھی الیکشن مہم میں نون لیگ کی طرح بغیر قیادت بے دست و پا رہی اور ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آئی۔ جنرل پرویز مشرف نے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ قاف کی مشترکہ حکومت کی تشکیل کی کوششیں شروع کیں۔ پارلیمنٹ میں پیپلزپارٹی کے قائد مخدوم امین فہیم تھے۔ جنرل پرویز مشرف مخدوم امین فہیم کو بہت پسند کرتے تھے۔ ان دنوں ان کی کئی آف دی ریکارڈ ملاقاتیں بھی رپورٹ ہوتی رہیں۔ کبھی کسی مشترکہ دوست کے ہاں اور کبھی دامن کوہ کے ریسٹورنٹ میں، دونوں کھانے کی میز پر اکٹھے ہوتے۔

پرویز مشرف اپنی نئی حکومت میں مخدوم امین فہیم کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے تھے۔ اس کے کئی مقاصد تھے، ایک تو وہ ملک کی ایک مقبول عوامی جماعت کی حکومت بنا کر اسے ہائی جیک کرنا چاہتے تھے، دوسرے اس اقدام سے ان کے غیر آئیی اقتدار کوسیاسی جواز مل جاتا، تیسرے یہ کہ وہ جونیجو طرزپر، ضیاء الحق کی طرح، سندھ سے ایک وزیراعظم لاکر پیپلزپارٹی میں بھٹوز کی برانڈنگ کو بے اثر کرنا چاہتے تھے۔

بظاہرپیپلزپارٹی کو اقتدار میں آنے کی یہ ایک بڑی پیشکش تھی جس پر مخدوم امین فہیم جیسا درویش صفت سیاستدان بھی ایک بار متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ مخدوم امین فہیم نے اس فارمولے پر بینظیر بھٹو کو قائل کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ آج کل آڈیو لیکس سے شہرت پانے والے خواجہ طارق رحیم بھی اس کھیل میں بہت سرگرم ہوگئے۔ خواجہ طارق رحیم کے بیک وقت بینظیر بھٹو اور جنرل مشرف سے رابطے تھے جبکہ مخدوم امین فہیم کے وہ دوست اور قانونی، سیاسی مشیر تھے۔ یہ الگ بات کہ گھر کے اسی ڈرائنگ روم میں اگررات کو مخدوم امین فہیم آتے، تو اگلی صبح وزارت عظمیٰ کے متبادل امیدوار میرظفراللہ جمالی کو بھی خواجہ طارق رحیم اپنے مشوروں سے نواز رہے ہوتے تھے۔

خیر،مسلسل کئی ہفتوں کی کوششوں کے بعد بینظیر بھٹو نے مخدوم امین فہیم کو وزیراعظم بننے کے لیے حمایت دینے سے انکار کردیا اور مخدوم امین فہیم سے کہا کہ وہ جنرل مشرف پر واضح کردیں  کہ یپلزپارٹی ایک فوجی آمر کے ساتھ ملک کر حکومت نہیں بناٗئے گی۔ یہ بڑی اور تاریخی بات یہ تھی کہ قانونی اور آئینی طور پر پارلیمنٹ کے اندر پارٹی سربراہ ہونے کے باوجود مخدوم امین فہیم نے اپنی سیاسی قائد کا حکم جنرل مشرف کو صاف اور کھلے لفظوں میں سنا کرجنرل مشرف کی وزارت عظمی کی پیشکش کو ٹھکرا دیا۔

مخدوم امین فہیم کے انکار کے باوجود جنرل مشرف کو حکومت سازی کے لیے پنجاب سے بینظیر بھٹو کےدیرینہ ساتھی راؤ سکندر اقبال نے کندھا فراہم کردیا۔ انہوں نے بینظیر بھٹو سے علیحدگی اختیار کرکے 17 ارکان کے ساتھ پیپلزپارٹی پیٹریاٹ کے نام سے فارورڈ بلاک بنا کر وزارتوں کے عوض بینظیر بھٹو کو چھوڑ دیا۔ اس کے بعد جنرل مشرف کے لیے میرظفراللہ جمالی کو وزیراعظم بنانا ممکن ہوگیا۔ گویا سندھی سیاستدان نے اپنی قائد کو دھوکہ نہ دیا جبکہ پنجاب کے راؤ سکندر اقبال نے مطلوبہ ’ ٹرن کوٹ‘ بآسانی فراہم کردئیے۔

یہ سارا قصہ مجھے ایک ایسے وقت میں یاد آیا ہے جب گذشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی تقریبا ایک ماہ کی نظر بندی کے بعد رہائی پائی  تو مختصر میڈیا ٹاک میں انہوں نے کہا کہ جیل کی قید تنہائی میں بہت کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع ملا۔ اب میں رہائی کے بعد فوری طور پر قائد عمران خان سے ملنے جارہا ہوں۔ موجودہ بحرانی صورتحال سے نکلنے کے لیے میرے پاس کچھ تجاویز ہیں جو چیئرمین کے گوش گذار کروں گا اور ان سے رہنمائی بھی لوں گا۔ شاہ محمود قریشی نے یہ بھی واضح کیا کہ انصاف کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں ہے۔ گویا وہ اسد عمر کی طرح نہ تو پارٹی عہدہ چھوڑنے جارہے ہیں اور نہ پارٹی سے علیحدگی کی کوئی بریکنگ نیوز دے رہے ہیں۔

 پاکسان تحریک انصاف اور اس کے قائد عمران خان بھی 9 مئی کے واقعات کے بعد اس وقت اپنی سیاست کے مشکل ترین دور سے گذر رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی اور نون لیگ تو مائنس مائنس کے کھیل کا مزہ چکھ چکی ہیں۔ لیکن عمران خان اس عمل سے پہلی بار گذر رہے ہیں۔ عمران خان محض پندرہ سولہ ماہ پہلے تک اسٹبلشمنٹ کی آنکھ کے تارے تھے۔ لاکھوں کے عوامی جلسوں میں ” سیم پیج ” وغیرہ کی اصطلاحات کا بڑے شوق اور جوش سے ذکر کرتے تھے لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ انہیں آئندہ الیکشن سے پہلے نااہلی کے کیسز کا سامنا ہے۔

مخدوم امین فہیم پاکستان پیپلزپارٹی میں وائس چئیرمین تھے۔ اور مخدوم شاہ محمود بھی اپنی پارٹی میں وائس چیئرمین ہیں۔ اسٹبلشمنٹ کو سندھی مخدوم بھی بہت پسند تھا اور اب پی ٹی آئی کا پنجابی مخدوم بھی دان کے من کو بھاتا ہے اور اسے عمران کے متبادل کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ مخدوم شاہ محمود قریشی پی ٹی آئی اور عمران خان کی سیاسی بقا کے لٗے کیا پیشکش لے کر ان سے ملتے ہیں۔  اور کیا وہ عمران خان کے لیے مخدوم امین فہیم ثابت ہوتے ہیں یا پنجاب کے راؤ سکندر اقبال؟؟؟

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین