ٹاپ سٹوریز
روس اور یوکرین کے درمیان ثالثی، کیا چین کے پاس قابل عمل منصوبہ ہے؟
یوکرین جنگ کو ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے اور بالآخر چین کے صدر شی جن پنگ نے یوکرین کے ہم منصب سے چھبیس اپریل کو فون پر رابطہ کر ہی لیا، اس فون رابطے کے لیے طویل انتظار بھی ختم ہوا لیکن کیا اس رابطے کے نتیجے میں جنگ بندی ہوپائے گی؟ واشنگٹن اور چند یورپی ملکوں نے اس فون رابطے کا رسمی سا خیرمقدم کیا ہے لیکن گرمجوشی کہیں نظر نہیں آئی۔
یہ فون رابطہ اب تک چین کی طرف سے اس تنازع میں ثالثی کے لیے اٹھایا گیا ٹھوس ترین قدم ہے، چین کئی ماہ سے اس کردار کے لیے اشارے دے رہا تھا۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان ایک گھنٹہ جاری رہنے والی گفتگو میں چین کی جانبب سے چند ٹھوس تجاویز بھی سامنے آئیں کہ کس طرح اس تباہ کن جنگ کو روکا جا سکتا ہے۔
چین کے مقاصد اور اہداف
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس فون کال کی ٹائمنگ اہم ہے کیونکہ یہ ایسا وقت ہے جب چین یورپ کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے اور امریکا کے ساتھ تعلقات بہتری کا خواہاں ہے۔
یورپ اور چین کے تعلقات یوکرین جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی تعلقات خراب ہونا شروع ہو گئے تھے کیونکہ یورپی لیڈر چین کی طرف سے روس کی مذمت نہ کئے جانے اور اس کے برعکس روس کے ساتھ معاشی اور سفارتی تعلقات بڑھانے پر ناخوش تھے۔
چین نے یورپ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں کیں لیکن پچھلے ہفتے ان کوششوں کو اس وقت دھچکا لگا جب چین کے وزیر خارجہ نے پیرس میں ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت سابق سوویت ریاستوں کا کوئی سٹیٹس نہیں، اس بیان کو صدر پیوٹن کے اس موقف کی تائید خیال کیا گیا کہ یوکرین کو روس کا حصہ ہونا چاہئے۔
واشنگٹن تھنک ٹینک سنٹر فار سٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز سے منسلک ماہر برائن ہارٹ کا کہنا ہے کہ صدر شی اور یوکرینی صدر کے فون رابطے اور ان واقعات کو الگ کرکے دیکھنا مشکل ہے۔ صدر شی نے ممکنہ طور پر اس فون کال کی ٹائمنگ کو یورپ کے خدشات دور کرنے کے لیے استعمال کیا لیکن ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا یہ فون کال بیجنگ کی کوئی مدد کرپائے گی۔ چین کی اعلیٰ ترین قیادت نے اپنے وزیر خارجہ کے بیان سے دوری اختیار کی لیکن جو نقصان ہونا تھا ہو چکا۔
صدر زیلنسکی جو کئی ماہ سے صدر شی کے ساتھ بات کرنے کے خواہشمند تھے، نے کال کے بعد قوم سے خطاب میں بہت امیدیں ظاہر کیں اور اس فون کال کو قیام امن کے اصولوں کی بحالی اور مضبوطی کے لیے چین کے اثر و رسوخ کو استعمال کرنے کا ایک موقع قرار دیا۔
صدر شی نے اس عزم کا اظہار کیا کہ چین لاتعلق نہیں بیٹھے گا اور چین تمام فریقوں کے ساتھ رابطوں کو آگے بڑھانے کے لیے خصوصی ایلچی بھجوانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ چین کے صدر کی طرف سے ایلچی بھجوانے کا اعلان ان کے ماضی کے اقدامات جیسا ہے جو انہوں نے افغانستان اور شام کے مسائل حل کرنے کے لیے اختیار کئے تھے۔
دوسری طرف جنگ اپنی پوری شدت کے ساتھ جاری ہے اور روس یوکرین کے مقبوضہ علاقے واپس کرنے پر راضی نہیں اور صدر زیلنسکی ملک کی سرحدوں کی بحالی تک لڑنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔
واشنگٹن کے تھنک ٹینک سٹمسن سنٹر سے وابستہ ماہر یون سن کا کہنا ہے کہ چین کی امیدیں حقیقت پسندانہ ہیں کہ وہ اس سارے عمل میں کیا حاصل کر سکتا ہے کیونکہ کسی کو بھی یقین نہیں کہ روس یا یوکرین مل بیٹھنے کو تیار ہیں ۔ چین اس موقع کو اپنے سفارتی تعلقات کی مضبوطی کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے، چین کو علم ہے جنگ جلد ختم ہونے والی نہیں لیکن وہ یورپ کے ساتھ خیر سگالی کا اظہار اور تعلقات کی مضبوطی چاہتا ہے۔کسی بھی طرح کی ثالثی کے کامیاب ہونے کی کوئی ضمانت نہیں لیکن ثالثی کی کوششوں سے چین کے کئی فائدے ہیں جو معمولی نہیں۔
کیا چین غیر جانبدار ثالث ہو سکتا ہے؟
ماسکو کے ساتھ بیجنگ کی قربت اور چین کے ممکنہ کردار پر مغربی دنیا کو کئی شکوک و شبہات درپیش ہیں۔یوکرین پر روس کے حملے کے بعد صدر شی نے چین کی غیرجانبداری کا دعویٰ کیا لیکن دونوں ملکوں کے درمیان برسوں پر محیط سٹرٹیجک سطح کی شراکت داری ہے اور جنگ کے بعد صدر شی نے ایک بار بھی زیلنسکی کو فون نہیں کیا لیکن صدر پیوٹن سے پانچ بار رابطے ہوئے جن میں دو بالمشافہ ملاقاتیں بھی شامل ہیں ۔
چین نے روسی افواج کے ساتھ مل کر فوجی مشقیں جاری رکھی ہیں، چین کے وزیر دفاع نے اس ماہ کے شروع میں ماسکو کا دورہ کیا اور دونوں ممالک کے درمیان “بڑھتے ہوئے مضبوط” اعتماد کو سراہا۔
یوکرین جنگ کا ایک سال مکمل ہونے کے بعد چین کی طرف سے جاری بیان میں مبہم الفاظ میں بیان جاری کیا گیا اور سیاسی تصفیہ کی بات کی گئی، چین نے جنگ بندی کی اپیل کی لیکن ماسکو سے فوج نکالنے کی اپیل اس بیان میں شا مل نہیں تھی، اس لیے اس بیان کو امریکا اور یورپ میں ماسکو کے حق میں تصور کیا گیا۔
یورپی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ چین کا ماضی کا ریکارڈ اور صدر پیوٹن کے ساتھ قریبی روابط صدر زیلنسکی کی نظروں میں چین کی ساکھ کو متاثر کر سکتے ہیں۔ لیکن صدر شی اور صدر پیوٹن کے یہی قریبی روابط چند ماہرین کی نظر میں ثالثی کے لیے چین کی کوششوں میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں ۔ اسد پر یورپی ماہرین کا اتفاق نظر آتا ہے کہ اب تک چین کی وزارت خارجہ کی طرف سے جو بیانات سامنے آئے ہیں ان میں امن کے لیے کوئی ٹھوس چیز شامل نہیں ۔