Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف درخواستیں، بینچ 7 رکنی رہے گا، تمام گرفتار افراد کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم

Published

on

فوجی عدالتوں میں عام شہریوں پر مقدمات چلائے جانے کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے لیے قائم نو رکنی بینچ ٹوٹنے کے بعد سات رکنی بینچ نے سماعت کی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سات رکنی بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی،جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل تھے۔

دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کسی نے میرے بیٹھنے پر اعتراض اٹھانا ہے تو بتا دے،اٹارنی جنرل صاحب آپکو کوئی اعتراض ہے تو میں کیس نہیں سنتا۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا ہمیں آپ پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ موسم گرما کی تعطیلات چل رہی ہیں اس لیے دلائل مختصر رکھے جائیں،چھٹیوں میں ہمارے بنچز دیگر رجسٹریز میں ہوتے ہیں۔

درخواست گزار اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں آرٹیکل 245 کا نفاذ کیا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے آرٹیکل 245 کے نفاذ کے خاتمے کا نوٹیفکیشن کر دیا ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں چل رہا ہے؟۔ سردار لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ بالکل سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں شروع ہو چکا ہے، قومی سلامتی اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا 9 مئی واقعات کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔

اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ نے کور کمانڈر اجلاس کا اعلامیہ عدالت میں پڑھ کر سنایا اور کہا کہ سویلینز کا ٹرائل یا تو کوئی کرنل کرے گا یا پھر بریگیڈیئر۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ جو آپ پڑھ رہے ہیں اس میں آئی ایس پی آر کا نام کہاں لکھا ہے؟ لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ یہ آئی ایس پی آر کا ہی جاری کردہ اعلامیہ ہے، کابینہ نے آئی ایس پی آر کے اعلامیے کی کھل کر توثیق کی،انسداد دہشتگردی عدالت سے درخواست کر کے سویلینز کے کیسز فوجی عدالتوں میں منتقل کرنے کا کہا گیا،جس نے بھی تنصیبات پر حملہ کیا ان سے میری کوئی ہمدردی نہیں ہے، جس نے جو جرم کیا ہے اس کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔

جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ جو مقدمات بنائے گئے ان کو سننے کا اختیار تو انسداد دہشتگردی عدالت کو پہلے ہی سے حاصل ہے۔

سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمارا یہی موقف ہے کہ کیسز انسداد دہشتگردی عدالت میں چلیں فوجی عدالتوں میں نہیں، نو مئی کے واقعات کی آڑ میں دس ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم چاہ رہے ہیں کہ صرف حقائق کے اندر رہیں، جو مقدمات درج ہوئے ان میں متعدد نام شامل ہیں، مقدمات میں کچھ پولیس اہلکاروں کے نام کیوں شامل کیے گئے؟

لطیف کھوسہ نے کہا کہ بتایا گیا پولیس والے بعد میں آئے جنھوں نے کچھ لوگوں کو گرفتار کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کتنے لوگوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے اور کتنے افراد گرفتار ہوئے؟

لطیف کھوسہ نے بتایا کہ پہلے 50 لوگ گرفتار ہوئے،پی ٹی آئی کے رہنماوں شاہ محمود قریشی، مراد سعید، فرخ حبیب کیخلاف مقدمات درج ہوئے، پورے ملک سے 10 مئی کو 4 ہزار افراد گرفتار ہوئے،کسی فرد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات درج نہیں ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ جو لوگ متاثرہ ہیں کیا ان میں سے کسی نے سپریم کورٹ سے براہ راست رجوع کیا؟ سرعدار لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ میرے پاس اس قسم کی معلومات نہیں ہیں۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ میں نے ایک درخواست دائر کی مگر فی الحال کسی متاثرہ شخص نے ملٹری کورٹس کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کیا۔

جسٹس یحیٰ آفریدی نے سوال کیا کہ جس قانون کے تحت فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہونا ہے کیا اس قانون کو کسی نے چیلنج کیا؟ جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا ملٹری کورٹس سے متعلق قانون چیلنج ہوسکتا ہے؟

لطیف کھوسہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کیخلاف مقدمہ کون سنے گا،سپریم کورٹ کو تو لوگ مان ہی نہیں رہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے لطیف کھوسہ سے کہا کہ آپ ہمیں آرمی ایکٹ اور ملٹری کورٹس کے رولز بتائیں کیونکہ ہمارے پاس کوئی کتاب نہیں۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم تو اس لیے آئے کہ ہمیں 25 کروڑ عوام کی فکر ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ انھوں نے عدالت میں سویلینز کے کیس فوجی عدالتوں میں منتقلی کی درخواست دی وہ دکھا دیں،جسٹس یحیٰ آفریدی نے کہا کہ کتنے لوگوں کے نام کورٹ مارشل کیلئے بھیجے گئے ہیں؟ آپ عمومی باتیں بتا رہے ہیں کوئی قانون بتائیں کہ کس بنیاد پر سزائیں ہو رہی ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مجسٹریٹ یا عدالت کو درخواست دی جاتی ہے کہ ان افراد کو ہم آرمی ایکٹ کے ٹرائل میں لے جانا چاہتے ہیں، عدالت نے کسی بنیاد پر تو مقدمات فوجی عدالتوں میں منتقل کرنے کی اجازت دی ہو گی؟

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اگر آرمی ایکٹ سویلینز پر لاگو نہیں ہوتا تو کیسے انسداد دہشتگردی عدالت نے مقدمات فوجی عدالت میں منتقل کرنے دیئے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کس قانون یا وجہ کے تحت سویلینز کے مقدمات فوجی عدالتوں میں منتقل کرنے کی اجازت دی گئی؟بیانات سے نکل کر اصل قانون کیا ہے وہ بھی بتا دیں، انسداد دہشتگردی عدالت یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ ہم ان افراد کو فوجی عدالتوں کے حوالے نہیں کر سکتے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ انسداد دہشتگردی عدالت میں تو کوئی پیش ہی نہیں ہوا یہی تو کہہ رہا ہوں، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے آرٹیکل 549 میں تو یہ ہے کہ متعلقہ افراد کو ان کے متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کیا جائے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہی تو سوال آپ کے سامنے لےکر آئے ہیں کہ کیسے عام شہریوں کو فوجی عدالتوں میں بھیجا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ وقت کی قلت ہے ایک وکیل روسٹرم پر آکر بات کرے،لطیف کھوسہ صاحب دس منٹ میں اپنے دلائل مکمل کریں۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ یہ دکھا دیں کہ آرمی ایکٹ میں کہاں ہے کہ کن حالات میں سویلینز کا ٹرائل ہوسکتا ہے، لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ آرمی ایکٹ میں کہیں سویلینز کے ٹرائل کا ذکر نہیں، جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ آرمی ایکٹ میں کہاں لکھا ہے کہ سزا کتنی ہوگی؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میرے خیال میں تو ہمارے سول قانون میں آرمی ایکٹ سے زیادہ سخت سزائیں ہیں، اگر پوچھا جائے کہ فوج سے سزا چاہیئے یا سول عدالتوں سے تو لوگوں کا رش لگ جائے گا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کورٹ مارشل میں بھی سول اور فوجداری جرائم ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے کہا کہ آپ کے اہم نکات ہم نے نوٹ کر لیے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا انسداد دہشتگردی عدالت میں بحث ہوئی کہ کیوں فوجی عدالتوں میں مقدمات منتقل کیے جائیں؟

لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ جب فارمیشن کمانڈرز اجلاس اور کابینہ سے منظوری ہوجائے تو 25 کروڑ عوام کہاں جائے گی؟ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا حکومت کا پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ اس کو چیلنج نہیں کرے گا؟

لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ سویلینز کے آرمی ٹرائل سے بین الاقوامی سطح پر کتنی بدنامی ہوتی ہے، پاکستان نے بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کیے ہوئے ہیں، جس نے پریس کانفرنس کی اسے چھوڑ دیا گیا باقی لوگ ابھی تک جیل میں ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ فوجی عدالتوں میں انڈر ٹرائل پر بنیادی حقوق کا اطلاق نہیں ہوگا،دیکھنا ہوگا کہ سپریم کورٹ نے وہ فیصلہ کس بنیاد پر دیا تھا، ان تمام نکات پر دوبارہ آئیں گے، آج کی سماعت مکمل کرتے ہیں،سینئر وکیل کو کل پہلے سنیں گے۔

وکیل فیصل صدیقی نے درخواست کی کہ جس نے پہلے درخواست دائر کی اسے سن لیں۔ چیف جسٹس نے اس پر رضامندی دی اور کہا کہ کل پہلے فیصل صدیقی کو سن لیں گے۔

لطیف کھوسہ نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ ملٹری کورٹس کی کاروائی پر حکم امتناع جاری کرے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر آنے کی ہدایت کی اور کہا کہ ہر چیز حکم امتناع سے درست نہیں کی جاسکتی،وکلا اور صحافیوں کو گرفتار کیا گیا چھاپے مارے گئے،صحافیوں کو رہا کر دینا چاہیے،اٹارنی جنرل صاحب عورتوں سمیت جتنے افراد گرفتار ہیں تفصیلات فراہم کریں،بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے،چاہے سول کورٹ ہو یا فوجی عدالت ملزم کو وکیل کے ذریعے دفاع کا موقع ملنا چاہیے، یہاں وکیلوں کو ہی اٹھایا جا رہا ہے، وکلاء کو ہراساں کیا جانا ناقابل قبول ہے، لطیف کھوسہ کے گھر پر حملہ ہوا عزیر بھنڈاری کو چند گھنٹے کیلئے غائب کیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کسی بھی وکیل کو ہراساں کرنا غلط ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرا طبقہ صحافی ہیں، صحافی آزاد نہیں ہیں اور یہ ٹھیک نہیں ہے،بتائیں کہ کتنے افراد کو اب تک گرفتار کیا گیا اور انہیں کہاں رکھا گیا، خواتین کو کہاں رکھا جا رہا ہے؟بچوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے، پورا معاشرہ ٹراما کا شکار ہے، لوگوں کی گفتگو ریکارڈ کی گئی ان کی ذاتی زندگی میں مداخلت کی گئی، یہ عوام کی آزادی کا معاملہ ہے،ان سے پوچھیں کہ کتنے افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، تمام گرفتار افراد کے درست اعدادوشمار پیش کیے جائیں، کیس کو جلد نمٹانا چاہتے ہیں،کوئی حکم امتناع جاری نہیں کر رہے،پہلے آپ کو سننا چاہتے ہیں،اس کیس کو سننے والا بنچ اب یہی رہے گا،اگر بنچ کا ایک بھی ممبر نہ ہوا تو سماعت نہیں ہو سکے گی، تمام فریقین اپنے دلائل تحریری طور پر جمع کرا دیں۔کیس کی سماعت کل ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی گئی۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین