دنیا
یورپ کی چوری شدہ ٹیکنالوجی سے ایرانی ڈرونز کی تیاری اور یوکرین کے محاذ پر استعمال
امریکی میڈیا میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایران نے مغربی ٹیکنالوجی چوری کر کے اس کی مدد سے طاقتور اسلحہ انڈسٹری کھڑی کی ہے اور اب یہ ٹیکنالوجی روس یوکرین کے شہروں پر حملے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق برطانیہ کے ادارے کنفلکٹ ارینجمنٹ ریسرچ، جو ہتھیاروں میں استعمال ہونے والے مختلف پرزوں پر ریسرچ کرتا ہے، نے نئی ریسرچ میں ثابت کیا ہے کہ ایران کے شہید 136 ڈرون جو ایران نے روس کو فروخت کئے ہیں دراصل جرمن ٹیکنالوجی کی بنیاد پر بنائے گئے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی ایران نے مبینہ طور پر بیس سال پہلے غیر قانونی طور پر حاصل کی۔
اس ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ ایران غیر قانونی اور چوری سے حاصل کی جانے والی ٹیکنالوجی کی نقل کس مہارت سے تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اب یورپی حکام کو ایک اور خدشہ لاحق ہو گیا ہے کہ روس یوکرین کے محاذ سے ملنے والے یورپی اسلحہ اور ٹیکنالوجی کو ایران کے حوالے کر سکتا ہے تاہم ابھی تک اس کے شواہد نہیں ملے۔
ایران اور ماسکو تعلقات حالیہ مہینوں میں مزید گہرے ہوئے ہیں، روس ایران سے ڈرون اور بیلسٹک میزائل لینا چاہتا ہے اور ایران روس سے سرمایہ کاری اسور تجارت کا خواہاں ہے، ایرانی حکام کے مطابق روس گزشتہ ایک سال میں ایران میں سب سے بڑا سرمایہ کار اور تجارتی شراکت دار بن چکا ہے۔
یورپی حکام کا خیال ہے کہ روس کو ایران کے ڈرونز کی ضرورت اس لیے ہے کہ وہ مہنگے میزائلوں کا متبادل ہیں اور روس کے پاس میزائلوں کا ذخیرہ بھی کم ہو رہا ہے۔ ایرانی ڈرون کی قیمت بیس ہزار ڈالر بتائی جاتی ہے جو ایک کروز میزائل کے مقابلے میں انتہائی کم قیمت ہے۔
جرمن ٹیکنالوجی اور ایرانی ڈرونز
پچھلے سال اکتوبر میں یوکرین کی ڈیفنس انٹیلی جنس کے سربراہ نے کہا تھا کہ روس نے ایران کو سترہ ہزار ڈرونز کا آرڈر دیا ہے اور یوکرین ایران کے ڈرون کو گرانے میں مہارت بھی منوا چکا ہے لیکن ڈرونز گرانے کے لیے درکار طیارہ شکن دفاعی نظام کم پڑ رہا ہے۔ ایران کے شہید 136 ڈرونز چالیس کلو گرام دھماکہ خیز مواد کے ساتھ درست حملہ کر کے وسیع نقصان کا سبب بنتے ہیں ۔
کنفلکٹ ارینجمنٹ ریسرچ نے پچھلے سال نومبر سے اس سال مارچ تک کے عرصے میں ایرانی ساختہ بیس ڈرونز کی جانچ کی اور ان میں سے تقریبا نصف شہید 136 ڈرون تھے۔ اس جانچ میں یہ بات سامنے آئی کہ شہید 136 موٹر ایک ایرانی کمپنی نے ریورس انجینئرنگ سے تیار کی ، اس کمپنی اوج پرواز پر امریکا اور یورپی ملکوں نے پچھلے سال دسمبر میں پابندی عائد کی تھی۔
اس ریسرچ میں معلوم ہوا کہ ان ڈرونز پر سیریل نمبر اوج پرواز کمپنی کے ہیں اور ایسے ہی سیریل نمبر سعودی تیل تنصیبات پر حملہ کرنے والے ڈرونز کے ڈھانچے پر بھی پائے گئے تھے اور متحدہ عرب امارات پر حملوں میں بھی یہی ڈرونز استعمال ہوئے۔
ایک لمبی جستجو
ڈرون انجن ٹیکنالوجی کے لیے ایران طویل عرصے سے کوششیں کر رہا تھا اور یہ کوششیں بیس سال پر محیط ہیں، 2006 ء میں ایران نے جرمن کمپنی کا انجن حاصل کیا اور تین سال بعد ایرانی انجینئر یوسف ابوطلیبی نے اعلان کیا کہ اس کی کمپنی نے ڈرون کا انجن تیار کر لیا ہے۔
کنفلکٹ ارینجمنٹ ریسرچ کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ ایرانی کمپنی اوج پرواز نے روس کو فراہم کئے گئے ڈرونز پر سیریل نمبر کو مٹانے کی کوشش کی اور یوں شہید 136 ڈرون کی فراہمی میں ایران کا کردار چھپانے کی کوشش ہوئی۔
ایران کے زیر استعمال چوری کی ٹیکنالوجی میں جمہوریہ چیک کے بنائے میزائل کے پرزے بھی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے 2020 ء میں ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ ایران کے قدس ون میزائل میں میں استعمال ہونے والا انجن ٹی جے 100 جیٹ انجن کی غیر قانونی نقل ہے اور اصل انجن جمہوریہ چیک کی ایک کمپنی بناتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے حیدر ٹو میزائل میں بھی جمہوریہ چیک کی ٹیکنالوجی والا انجن نصب ہے۔ جمہوریہ چیک کی کمپنی کا کہنا ہے کہ اس نے کبھی ایران یا یمن کو انجن فراہم نہیں کیا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ایران نے ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے فرنٹ کمپنیوں کو استعمال کیا۔ اقوام متحدہ کے ایک پینل نے پتہ لگایا تھا کہ 2010 ء میں جمہوریہ چیک کی کمپنی نے ہانگ کانگ کی ایک کمپنی کو پرزے برآمد کئے تھے جو 2019 میں ایرانی میزائلوں میں استعمال ہوئے۔
تہران اور ماسکو کے گہرے ہوتے تعلقات
روس کو ڈرونز کی فروخت سے تہران اور ماسکو کے پہلے سے مضبوط تعلقات مزید گہرے ہوئے ہیں کیونکہ دونوں ملک عالمی پابندیوں کی وجہ سے بین الاقوامی تجارت اور مالیاتی نظام سے باہر دھکیلے جانے کے بعد باہمی تعلقات پر مزید توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ ایران کے وزیر خزانہ نے گزشتہ ماہ فنانشل ٹائمز کو بتایا تھا کہ روس کے ساتھ ایران کے تعلقات سٹرٹیجک نوعیت کے ہیں اور دونوں ملک بہت سے پہلوؤں بالخصوص اقتصادی معاملات پر مل کر کام کر رہے ہیں ۔
وزیر خزانہ احسان خندوزی نے گزشتہ ماہ فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ "ہم روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو اسٹریٹجک قرار دیتے ہیں اور ہم بہت سے پہلوؤں، خاص طور پر اقتصادی تعلقات میں مل کر کام کر رہے ہیں۔
روس کو ہزاروں ڈرونز کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن کو ایران ڈرون کی صنعت مضبوط کرنے پر خرچ کرے گا اور شراکت داری کے نئے شعبے بھی تلاش کئے جائیں گے۔