Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

الیکشن 2023

پنجاب انتخابات کیس: الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار پرسوال اٹھادیا،مذاکرات دوبارہ شروع کریں،گیندحکومتی کورٹ میں ہے، چیف جسٹس

Published

on

سپریم کورٹ میں پنجاب میں انتخابات کے فیصلے پر الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر تین رکنی بنچ کا حصہ ہیں۔

مرکزی کیس میں نہ اٹھائے جانے والے نکات اب کیسے اٹھائے جا سکتے ہیں، چیف جسٹس

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فنڈز اورسیکورٹی کا مسئلہ پہلے الیکشن کمیشن نے بتایا تھا،آج تو الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار پر سوال اٹھا دیا ہے، نظر ثانی درخواست پر نوٹس جاری کر دیتے ہیں، الیکشن کمیشن نیا پینڈورا باکس کھول رہا ہے،مرکزی کیس میں جو نکات نہیں اٹھائے گئے وہ اب کیسے اٹھائے جاسکتے ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے تمام سیاسی جماعتوں، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے ایڈوکیٹ جنرلز کونوٹس جاری کر دیئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت کو نظرثانی میں آنا چاہئے تھا۔ چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ انہیں دلائل کے لیے کتنا وقت درکار ہے؟ الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ میں دو سے تین گھنٹوں میں دلائل مکمل کر لوں گا، الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ استدعا بھی کی گئی کہ دس روز تک سماعت ملتوی کی جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ اپنا فیصلہ دے چکی ہے، نظر ثانی کی گنجائش آئین میں دی گئی ہے۔ اس پر تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ آئین کا قتل ہوچکا ہے، پنجاب میں نگران حکومت غیر آئینی ہوچکی ہے،۔ْ

سیاسی ماحول تشویشناک ہوچکا، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی ماحول تشویشناک ہوچکا ہے،سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچایا جارہا ہے،سپریم کورٹ ان حالات میں اپنی آنکھیں بند نہیں کر سکتی،آج دیکھ لیں وفاقی حکومت بے بس ہے لوگ گیٹ پھلانگ رہے ہیں،ملک میں انتخابات کا وقت ابھی ہے،  پریشان کن ہے کہ جس طرح سیاسی طاقت استعمال ہو رہی ہے، باہر دیکھیں کیا ماحول ہے،ملکی اداروں اور اثاثوں کو جلایا جا رہا ہے،باہر دیکھیں تنصیبات کو آگ لگائی جا رہی ہے،چار پانچ دنوں سے جو ہو رہا ہے اسے بھی دیکھیں گے،انتحابات جمہوریت کی بنیاد ہیں۔

تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ آئین پر عملدرآمد سب کا فرض ہے،آئین کے عملدراری اور خلاف ورزی کے درمیان لوگ کھڑے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کی زندگیوں کا تحفظ ضروری ہے،میں نے لوگوں کو گولیاں لگنے کی فوٹیج بھی دیکھی ہے،ایگزیکٹو اور اپوزیشن اخلاقیات کا اعلی معیار برقرار رکھیں،آئین پر عملدرآمد لازمی ہے،اس ماحول میں آئین پر عملدرآمد کیسے کرایا جائے؟۔

مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی بات پر وکلا میں تلخی

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ مذاکرات دوبارہ کیوں شروع نہیں کرا سکتے۔ اس پر تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر بولے کہ ہماری مذاکراتی ٹیم کے دو فریق گرفتار ہوچکے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت نے سنجیدگی سے مذاکرات میں حصہ لیا تھا۔مذاکرات تحریک انصاف نے ختم کیے تھے۔ تحریئک انصاف کے وکیل علی ظفر نے مذاکرات سے دستبرداری کا موقف اپنائے ہوئے کہا کہ اب مذاکرات ختم کر کے بات آئین کی عملداری پر آگئی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں ہی وہ پہلا شخص تھا جس نے مذاکرات کی بات کی، مذاکرات بالکل ہونے چاہئیں، دونوں جانب سلجھے ہوئے لوگ ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین سیاسی حقوق کا ضامن ہے،ہمیں سیاسی معاملات میں نہیں جانا نہ ہی کچھ سننا چاہتے ہیں،امید کرتے ہیں مذاکرات دوبارہ شروع ہونگے اور کوئی حل نکل آئے گا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ 2 مئی کو مذاکرات ختم کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کچھ ہوا تھا اچانک کہ جس سے مذاکرات ختم ہوئے۔ تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے آگاہ کیا کہ انتخابات کی تاریخ پر بات نہیں بن رہی تھی۔ اس اٹارنی جنرل نے علی ظفر کو مخاطب کیا اور کہا کہ ایسے نہ کریں،چیف جسٹس نے آپ کو کہا ہے کہ جو پچھلے ہفتے ہوا وہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ اس پر فضا میں کچھ تلخی ۤگئی اور علی ظفر نے جواب دیا کہ  پچھلے ہفتے نام نہاد جمہوری حکومت نے سابق وزیراعظم کو احاطہ عدالت سے گرفتار کیا۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ یہ بھی دیکھیں کہ اس کے بعد کیا کیا ہوا ہے، گرفتاری کے معاملے کو عدالت نے درست قرار دیا تھا۔

کیا لگتا ہے عدالت 90 دن میں الیکشن بھول گئی ہے؟ چیف جسٹس

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مذاکرات دوبارہ شروع کریں،جو بیانیہ دونوں جانب سے بنایا جا رہا ہے اس کو حل کریں،علی ظفر درست کہہ رہے ہیں کہ بال حکومت کے کورٹ میں ہے، حکومت مذاکرات کی دعوت دے تو علی ظفر بھی اپنی قیادت سے بات کریں، ملک میں کاروبار کا پہیہ رک گیا ہے، موٹروے پر سفر کیا کچھ نظر نہیں آیا کیونکہ لوگوں کا کاروبار ختم ہوچکا ہے،سپریم کورٹ عوام کے حقوق کے دفاع کیلئے موجود ہے، بنیادی حقوق کے نفاذ کیلئے امن ہونا ضروری ہے، معیشت منجمد ہے، لوگ باہر نہیں نکل رہے، چپ ہو کر بیٹھ گئے ہیں، باہرپرتشدد ماحول ہے، اگر تفریق زدہ معاشرہ ہوگا تو انتخابات کے نتائج کون قبول کرے گا؟ میرا پیغام ہے کہ دونوں جانب سے اخلاقیات کے اعلی معیار کو قائم کیا جائے، آپ کوکیا لگتا ہے عدالت بھول گئی ہے کہ 90 دن کی میعاد آئین کی بنیاد ہے؟۔

عدالت عظمیٰ نے سیاسی جماعتوں اور دیگر تمام فریقوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے منگل تک ملتوی کردی۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین