الیکشن 2023
پہلے بااختیار نگران کے لیے ‘ اپنے بندے’ کی تلاش
نگران حکومت کی تشکیل کیلئے الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے۔ نگران وزیر اعظم کون ہوگا؟ اس سوال میں ہمیشہ ایک کشش رہی ہے لیکن اس مرتبہ اس کا شدت سے انتظار ہو رہا ہے. اب معاملہ وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف میں نہیں رہا بلکہ اس عمل میں بالواسطہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں بھی حصہ ہیں۔
نگران وزیر اعظم کے نام پر قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ وہ کون خوش قسمت ہوگا جو اس منصب پر بیٹھے گا۔ اس مرتبہ نگران وزیر اعظم ماضی کے نگران وزرا اعظم سے مختلف یوگا کیونکہ اس سے پہلے تو 60 دنوں کیلئے نگران حکومت کے سربراہ بنتے رہے ہیں لیکن اس مرتبہ نگران وزیر اعظم 90 دنوں کیلئے ہوگا اور عین ممکن ہے کہ اس مدت میں اضافہ ہو جائے۔ دوسرا الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد اس کے اختیارات بھی رسمی نوعیت کے نہیں رہے۔
کوئی کہہ رہا ہے نگران وزیر اعظم مسلم لیگ ن کی منشا کے مطابق ہوگا، تو کسی کا خیال ہے کہ نگران وزیر اعظم کو پیپلز پارٹی کی خوشنودی حاصل ہوگی۔ فی الحال تو نگران وزیر اعظم کا نام ایک معمہ بننا ہوا ہے۔ اس ساری صورتحال میں ایک بات تو طے ہے کہ نگران وزیر اعظم جو کوئی بھی ہوگا اسے اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی کا آشیر باد ضرور حاصل ہو گا۔
یہ بات تو طے ہے کہ قومی اسمبلی اپنی معیاد مکمل ہونے سے تین دن پہلے تحلیل کی جا رہی ہے جس سے نگران حکومت کی معیاد خود بخود 90 دنوں ہو جائے۔ ویسے نگران حکومت کو ایک ماہ یا 30 دن اضافی دینے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ اگر 60 دنوں میں انتخابات ہوتے تو الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ قومی اسمبلی کوعین معیاد سے چند دن پہلے تحلیل کرنا اور پھر الیکشن ایکٹ کے ذریعے نگران وزیر اعظم کو اختیارات دینے سے اُن قیاس آرائیوں کو تقویت مل رہی ہے کہ انتخابات وقت پر نہیں ہوں گے۔
حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ انتخابات میں تاخیر کے اثر کو زائل کرنے کیلئے بغیر کسی دوسری رائے اسمبلی کو معیاد مکمل ہونے پر تحلیل کرے تاکہ انتخابات کیلئے کسی نگران حکومت کو ایک دن بھی اضافی نہ ملے۔ اب تک یہ بات سامنے آئی ہے کہ قومی اسمبلی 9 اگست کو تحلیل ہو جائے گی لیکن اس معقول وجہ تو سامنے نہیں آئی۔
1985 سے پہلے نگران حکومت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ نگران حکومت کی تشکیل کا تصور 1985 میں بحالی آئین احکامات کے ذریعے آئین میں شامل کیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے اسی کے تحت پہلی نگران حکومت تشکیل دی تھی۔
پہلی مرتبہ جب محمد خان جونیجو کی حکومت ختم کی گئی تو نگران حکومت کا قیام عمل میں آیا. اس کے بعد اسمبلی کی تحلیل کے ساتھ نگران حکومتیں تشکیل پاتی رہیں ہیں۔ صدر مملکت نگران وزیر اعظم کو نامزد کرتے تھے۔ یہ سلسلہ 2007 تک جاری رہا جس کے بعد 18 ویں ترمیم کے تحت نگران وزیر اعظم یا نگران وزیر اعلیٰ کیلئے مشاورت کا عمل متعارف کرایا گیا۔
جنرل ضیاء الحق نے وفاق میں جو نگران حکومت تشکیل دی اس میں نگران وزیر اعظم کی نامزدگی نہیں کی گئی تاہم ایک کابینہ تشکیل دی گئی۔ جنرل پرویز مشرف آخری صدر مملکت تھے جنہوں نے نگران وزیر اعظم نامزد کرنے کا صدارتی اختیار استعمال کیا اور نگران وزیر اعظم کے منصب کیلئے اُس وقت کے چیئرمین سینیٹ محمد میاں سومرو کا نام چنا۔
اس مرتبہ وزیر اعظم شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض خاں نگران وزیر اعظم کیلئے مشاورت کریں گے اور دونوں کی جانب سے تین، تین نگران وزیر اعظم کیلئے پیش کیے جائیں گے۔ اب تک فریقین نے اپنے اپنے پتے ظاہر نہیں کئے ہیں اور پتے سینے سے لگا کر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب شہباز شریف اور راجہ ریاض نگران سیٹ اپ کیلئے بات چیت کریں گے. اس سے پہلے 2013 میں بھی دونوں نگران وزیر اعلیٰ کیلئے مشاورت کا حصہ رہے کیونکہ تب شہباز شریف وزیر اعلی پنجاب تھے اور راجہ ریاض پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تھے لیکن دونوں رہنماؤں کا نگران وزیر اعلیٰ کیلئے کسی ایک نام پر اتفاق نہیں ہوسکا تھا۔
گزشتہ دنوں سینیٹر اسحاق ڈار کا نام نگران وزیر اعظم کیلئے گردش کر ریا تھا لیکن اب مسلم لیگ ن کے صدر اور وزیر اعظم شہباز شریف نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اسحاق ڈار نگران وزیر اعظم نہیں ہوسکتے۔ اسحاق ڈار صرف وزیر خزانہ ہی نہیں بلکہ شہباز شریف کے بڑے بھائی نواز شریف کے سمدھی بھی ہیں۔ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض نے بھی اسحاق ڈار کے نام نامزدگی پر ناپسیندگی کا اظہار کیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر اسحاق ڈار کا نام نگران وزیر کیلئے کیوں لیا گیا؟
اخباری اطلاعات کے مطابق نگران وزیر اعظم کی نامزدگی پر وزیر اعظم شہباز شریف حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کیساتھ مشاورت کر رہے ہیں لیکن ابھی تک کسی نتیجے تک نہیں پہنچے بلکہ اس معاملے پر چپ سادھی ہوئی ہے ۔ شہباز شریف بھی ایک کٹھن امتحان سے گزر رہے ہیں، اُہیں اپنے بڑے بھائی نواز شریف اور حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کو نگران وزیر اعظم کے نام پر متفق کرنا ہے اور یہ کوشش کرنی ہے کہ کسی بھی قسم کی ان بن نہ ہو۔
سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان بھی اس معاملے پر تبادلہ خیال ہوا ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ نگران وزیر اعظم اُن کے بھروسہ کا شخص ہونا چاہیے۔ آسان الفاظ میں ” اپنا بندہ” تلاش کیا جا رہا ہے۔
اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض بھی حزب مخالف کے ارکان سے مشاورت کے عمل سے گزریں گے۔ حکومتی اتحاد نگران وزیر اعظم کیلئے سیاسی شخصیت کو نامزد کرنا چاہتا ہے جبکہ دوسری طرف غیر سیاسی شخصیت یعنی ٹیکنوکریٹ نگران وزیر اعظم کی نامزدگی کی باتیں بھی خوب زوروں پر ہیں۔ جب تک نام سامنے نہیں آتے ہیں قیاس آرائیاں چلتی رہیں گی۔
2013 اور 2018 میں تو اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو نگران وزیر اعظم کیلئے چنا گیا تھا لیکن اس مرتبہ صورت حال پہلی جیسی نہیں ہے۔ اس مرتبہ نگران حکومت کیلئے سیاست دان اور ٹیکنوکریٹ کے درمیان میچ پڑ سکتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کو نگران وزیر اعظم کیلئے ایک دوسرے کو گنجائش دینا ہوگی تاکہ کسی نام پر اتفاق رائے کو ممکن بنایا جا سکے اور نوبت یہاں تک نہ آئے کہ نگران وزیر اعظم کی نامزدگی کا فیصلہ الیکشن کمیشن کو کرنا پڑے۔.
نگران وزیر اعظم سیاسی شخصیت ہوتی ہے یا پھر ٹیکنوکریٹ ایک بات تو طے ہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم بعد ماضی کی نسبت ایک زیادہ اختیار والا نگران وزیر اعظم ہوگا۔
-
کھیل11 مہینے ago
ورلڈ کپ میں ٹیم کی بدترین کارکردگی، سری لنکا نے اپنا کرکٹ بورڈ برطرف کردیا
-
کھیل1 سال ago
کم عمر لڑکی کی سیکس ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے پر ریئل میڈرڈ کے 3 کھلاڑی گرفتار
-
تازہ ترین5 مہینے ago
چیئرمین پی سی بی دو طرفہ سیریز پر بات کرنے آئرلینڈ پہنچ گئے
-
پاکستان5 مہینے ago
مریم نواز سے گورنر پنجاب کی ملاقات،صوبے کی ترقی کے لیے اہم امور پر تبادلہ خیال
-
ٹاپ سٹوریز1 سال ago
آئی ایم ایف بورڈ سے معاہدہ منظور،1.2 ارب ڈالر کا فوری اجرا ممکن، باقی رقم دو سہ ماہی جائزوں سے مشروط
-
کالم1 سال ago
اسلام میں عبادت کا تصور
-
ٹاپ سٹوریز4 مہینے ago
اسحاق ڈار سے امریکی سفیر کی ملاقات، سکیورٹی اور اقتصادی تعاون سمیت دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال
-
تازہ ترین8 مہینے ago
بلا ٹرکاں والا سے امیر بالاج تک لاہور انڈر ورلڈ مافیا کی دشمنیاں جو سیکڑوں زندگیاں تباہ کرگئیں