کالم
اتحادی سیاست کا موسم لوٹ آیا
جوں جوں انتخابات کا وقت قریب آ رہا ہے سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی حکمت عملیاں ترتیب دے رہی ہیں ۔پی ڈی ایم انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے کوششیں کر رہی ہیں، مسلم لیگ ن،پیپلزپارٹی مختلف سیاسی و دینی جماعتوں سے انتخابات میں نتائج حاصل کرنے کے لئے نئے نئے لوگ شامل کر رہے ہیں ۔
دوسری طرف پی ٹی آئی کی روزانہ کوئی نہ کوئی وکٹ گر رہی ہے اور کچھ کھلاڑی گھر بیٹھنے کو ترجیح دے رہے ہیں، کچھ کھلاڑی نئی ٹیموں کا حصہ بن رہے ہیں۔
مسلم لیگ (ق)اور جہانگیر ترین بھی لنگوٹ کس کر میدان میں آنے کی تیاری کر رہے ہیں ۔ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جہانگیر ترین اور مسلم لیگ ق پی ڈی ایم کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے فارمولا پر انتخابات میں حصہ لیں گے لیکن اس سے قبل انکی کوشش ہو گی کہ وہ عدالت سے اپنے ختم کروالیں،
اسی فارمولے پر نواز شریف بھی اپنے آپ کو پاک صاف کرائیں گے لیکن یہ ابھی وہ خود بھی طے نہیں کر سکے کہ یہ کام کب کرنا ہے خیال یہی کیا جا رہا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ سب ممکن ہو گا۔
جماعت اسلامی کدھر جائے گی؟ یہ بات ابھی واضح نہیں ہو سکی۔اگر ماضی کا جائزہ لیا جائے تو مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی کا تین سے زائد مرتبہ مختلف انتخابات میں اتحاد رہ چکا ہے ۔ آخری مرتبہ اتحاد کے باعث 1997 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن نے دو تہائی اکثریت حاصل کی تھی، لیکن کچھ ہی عرصہ بعد یہ اتحاد ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بعد ختم ہو گیا تھا۔
اب ایک مرتبہ پھر اتحادوں کی سیاست کا آغاز ہو چکا ہے امید ہے کہ کچھ دنوں بعد تحریک انصاف بھی اتحاد کے لئے مختلف جماعتوں سے مذاکرات شروع کر دے گی۔ تاہم ایک بات واضح ہے کہ کوئی بھی جماعت اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ بغیر اتحاد کے واضح برتری حاصل کر سکے۔ پاکستان میں حزب اختلاف کی پارٹیوں کے اتحاد کی تاریخ بہت پرانی ہے۔
پاکستان میں سب سے قابل ذکر سیاسی اتحاد 1964ء میں اس وقت بنا جب جنرل ایوب خان نے ایک نیا آئین بنایا اور اس کے تحت صدارتی انتخابات میں بطور امیدوار کھڑے ہونے کا اعلان کیا۔ اس وقت حزب اختلاف کی پارٹیوں نے COP کے نام سے ایک سیاسی اتحاد بنایا۔COP نے مشترکہ طور پر محترمہ فاطمہ جناح کوصدارتی امیدوار نامزد کیا۔ جنرل ایوب خان کی آمریت کے خلاف پہلی کامیاب سیاسی تحریک تھی، اس تحریک میں سٹیج پر مولانا مودودی اور ولی خان ایک ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔ مادر ملت کو تو حکومت نے ہرا دیا لیکن آمریت کے خلاف سیاسی بیداری پیدا ہوئی۔ اس کے بعد جنرل ایوب خان کے خلاف PDM کے نام سے ایک اتحاد بنا۔
جب 1968ء میں عشرہ ترقی منانے کے دوران ایوب خان کے خلاف طلبہ کی تحریک شروع ہوئی۔ اس وقت سیاسی جماعتوں نے DAC کے نام سے سیاسی اتحاد بنایا اس اتحاد نے تحریک کے ساتھ ساتھ جنرل ایوب خان سے حکومت چھوڑنے کیلئے مذاکرات بھی کئے۔ اس اتحاد میں ذوالفقارعلی بھٹو کی پیپلز پارٹی اور مولانا عبدالحمید بھاشانی کی نیشنل عوامی پارٹی کے علاوہ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں شامل تھیں۔ ایک طرف بھٹو صاحب اور طلبہ کی عوامی تحریک اور دوسری طرف DAC کی طرف سے دباؤ نے جنرل ایوب خان کو استعفا دینے پر مجبور کردیا۔ انتخابات کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹونے حکومت سنبھالی تو کچھ عرصے کے بعد امریکہ اور شہنشاہ ایران کے کہنے پر بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کو برخاست کردیا۔ اس برطرفی کے خلاف بطور احتجاج صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) میں NAP اور JUI کی حکومت نے بھی استعفا دے دیا۔
صوبہ بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا میں جمہوری حکومتوں کے خاتمے اور بلوچستان میں فوجی ایکشن کے بعد بھٹو صاحب کے خلاف حزب اختلاف نے UDF کے نام سے ایک اتحاد بنایا۔ اس اتحاد نے حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی ایک موثر تحریک چلائی۔ پھر یہ اتحاد غیر فعال ہو گیا۔ بھٹو صاحب نے 1976ء میں انتخابات کا اعلان کیا۔ اسی وقت تمام اپوزیشن نے مل کر PNA یا قومی اتحاد کے نام سے ایک اتحاد بنایا۔ اس اتحاد نے بالآخر فوج کے ساتھ مل کر بھٹو صاحب کی حکومت ختم کردی۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے خلاف تمام پارٹیوں بشمول پیپلز پارٹی نے MRD کے نام سے اتحاد بنایا اور جمہوری تحریک چلائی۔ضیاء الحق کے دور میں جب موومنٹ فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی ایم آرڈی کے نام سے اپوزیشن کا اتحاد بنا تو اس اتحاد میں شامل بعض لیڈروں کے بارے میں تاثریہ تھا کہ وہ جنرل صاحب کے آدمی ہیں۔ 1985ء میں جب جنرل ضیاء الحق مرحوم نے غیر جماعتی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا تو اس کا مقصد ایم آر ڈی میں شامل جماعتوں اور لیڈروں کو انتخابی عمل سے باہر رکھنا تھا۔ لیکن بعد میں قومی اور بین الاقوامی دباﺅ کے تحت مرحوم جنرل کو انتخابات میں تمام لیڈروں کو حصہ لینے کی اجازت دینا پڑی۔ایم آر ڈی کی قیادت نے ایبٹ آباد میں تحریک استقلال کے سربراہ ائیر مارشل (ر) اصضرخان کے گھر پر اجلاس میں بلایا جس میں یہ فیصلہ کیا جانا تھا کہ ایم آر ڈی کو جنرل ضیاء الحق کے تحت انتخابات میں حصہ لینا چاہئے یا نہیں یہ اپوزیشن کا ایک اہم اجلاس تھا۔1988ء میں انتخابات کے موقع پر (آئی جے آئی) اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے ایک اتحاد بنایا گیا‘ بے نظیر بھٹو کیخلاف اس اتحاد نے زبردست تحریکیں چلائیں۔ نواز شریف کے خلاف GDA بنائی گئی۔ جنرل مشرف کی آمریت کیخلاف اے آر ڈی بنائی گئی۔
اب ایک مرتبہ پھر اتحادی سیاست کا آغاز ہو چکا ہے ایک بات طے ہے کہ مذہبی جماعتیں علحیدہ کامیابی تو شاید نہیں حاصل کر سکیں لیکن جس کے ساتھ وہ شامل ہوئیں کامیابی اکثر اسکا مقدر بنی اور سب سے زیادہ فائدہ مسلم لیگ ن نے اٹھایا اور ماضی میں دو مرتبہ مرکزی حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔