Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں سے دستبردار ہوچکی، چیف الیکشن کمشنر نے خط علی ظفر کو دے دیا

Published

on

چیف الیکشن کمشنرنےسنی اتحاد کونسل کاخط بیرسٹر علی ظفر کو دے دیا جس میں سنی اتحاد کونسل کے سربراہ پارٹی کے لیے مخصوص نشستوں سے دستبردار ہوچکے ہیں۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہاکہ سربراہ سنی اتحادکونسل نے26جنوری کوالیکشن کمیشن کو خط لکھا، سنی اتحاد کونسل نےکہا جنرل الیکشن نہیں لڑرہے نا مخصوص نشستیں چاہییں۔

سنی اتحاد کونسل میں آزاد امیدواروں کی شمولیت اور خصوصی نشستوں کی الاٹمنٹ کے حوالے سے الیکشن کمیشن میں سنی اتحاد کونسل کے خلاف چھ درخواستوں پر سماعت جاری ہے۔

سنی اتحاد کونسل کے وکلا علی ظفر اور بیرسٹر گوہر خان کے دلائل جاری ہیں۔

علی ظفر کا کہنا ہے کہ ہم جمہوریت کی بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، اپنی اپنی سیٹیں لے لی ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ سیٹیں بھی ہم نے لینی ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ اب سیاسی جماعتیں ان سیٹوں کی لالچ میں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بیرسٹر علی ظفر کے دلائل مکمل ہو گئے ہیں۔

جس کے بعد چیف الیکشن کمشنر نے سنی اتحاد کونسل کا خط بیرسٹر علی ظفر کو دے دیا۔

چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ سربراہ سنی اتحاد کونسل نے 26 جنوری کو الیکشن کمیشن کو خط لکھا، سنی اتحاد کونسل نے کہا جنرل الیکشن نہیں لڑے نا مخصوص نشستیں چاہییں۔

چیف الیکشن کمشنر نے علی ظفر کو مخاطب ہو کر سوال کیا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں چاہییں تو آپ کیوں ان کو مجبور کر رہے ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے سنی اتحاد کونسل کے خط سے لاعلمی کا اظہار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو سنی اتحاد کونسل نے ایسے کسی خط کے حوالے سے نہیں بتایا۔

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ آزاد امیدواروں پر پابندی نہیں کہ کس جماعت کو جوائن کریں کس کو نہیں، بنیادی مقصد کسی بھی حکومت یا اپوزیشن کا بنانے میں معاونت تھا۔ آئین میں کہیں نہیں ہے کہ کس جماعت میں شمولیت ہوسکتی ہے اور کس میں نہیں۔ پہلا سوال تھا سنی اتحاد کونسل منتخب نہیں، آزاد امیدوار شمولیت کربھی لیں تو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک درخواست گزار کا موقف ہے سیاسی جماعت کا پارلیمانی جماعت ہونا ضروری ہے۔ آئین میں سیاسی جماعت کا ذکر ہے نہ کہ پارلیمانی جماعت کا، پارلیمانی جماعت اور سیاسی جماعت میں فرق متعلق الگ آرٹیکل ہے۔

اس پر ممبر سندھ نثار درانی نے سوال کیا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعت چاہے غیر پارلیمانی ہو اگر ممبران شامل ہوگئے تو پارلیمانی بن جائے گی۔

علی ظفر کا کہنا ہے کہ بالکل سیاسی جماعت پارلیمانی بن سکتی ہے جب ممبران اسمبلی شامل ہوں، اگر ایس آئی سی کو مخصوص نشستیں نہ بھی دی جائیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں میں تقسیم کر دی جائیں۔

علی ظفر کا کہنا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت اسمبلی میں 20 جنرل نشستیں حاصل کر پائی تو اسے 30 جنرل نشستوں کے حساب سے مخصوص نشستیں نہیں دی جا سکتیں۔ آئین میں درج ہے کہ مخصوص نشستوں کا فیصلہ آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد کیا جائے گا۔

چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیے کہ اس آرٹیکل کی یہ تشریح بھی ہو سکتی ہے کہ مخصوص نشستیں صرف اس جماعت کو ملیں گی جو الیکشن کے ذریعے اسمبلیوں میں آئی۔ علی ظفر کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 51 ڈی واضح ہے کہ سیاسی جماعتوں کو متناسب نمائندگی کے تحت مخصوص نشستیں الاٹ ہونی ہیں۔ آزاد ارکان کی شمولیت کے بعد سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حق دار ہے۔

علی ظفر کا کہنا ہے کہ آئین سیاسی جماعت اور پارلیمانی پارٹی میں تفریق کرتا ہے۔ بھلے ہی ایس آئی سی نے خود الیکشن میں حصہ نہیں لیا، آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد وہ پارلیمانی پارٹی بن گئی۔

چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کی ترجیحی فہرست بھی جمع نہیں کرائی، کیا سنی اتحاد کونسل الیکشن کے بعد ترجیحی فہرست جمع کراسکتی ہے؟

ممبر بابر حسن بھروانہ نے ریمارکس دیے کہ کیا صرف آزاد ارکان کی بنیاد پر ایک سیاسی جماعت کو مخصوص نشستیں دیدیں؟ آزاد ارکان کے بغیر اس وقت سنی اتحاد کونسل کی کوئی حیثیت نہیں، ان کا کہنا تھا کہ جن جماعتوں کے ارکان نے نشستیں جیتیں ان جماعتوں میں کیوں مخصوص نشستیں تقسیم نہ کریں؟

علی طفر نے دلائل دیے کہ آئین کے مطابق سیاسی جماعت کے لیے پارلیمانی پارٹی ہونے کی کوئی شرط نہیں، ان کا کہنا تھا کہ مخصوص نشستیں نہ دینے سے سینیٹ الیکشن میں بھی سنی اتحاد کونسل کو نقصان ہوگا۔

اس پر ممبر بابر حسن بھروانہ نے سوال کیا کہ ترجیحی فہرست کون دے گا پارٹی سربراہ یا پارلیمانی پارٹی کا سربراہ؟ فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ ترجیحی فہرست اس وقت دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ترجیحی فہرست جمع کرانے کا وقت الیکشن سے پہلے گزر چکا ہے۔

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ اعتراض یہ ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کی لسٹ نہیں دی، جب غیر معمولی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو تشریح کرنی پڑتی ہے ۔

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعت وہ ہے جو انتخابات میں حصہ لے۔ اس پر ممبر اکرام اللہ نے سوال کیا کہ جس پارٹی کا آپ حوالہ دے رہے ہیں کیا اس پارٹی نے انتخابات میں حصہ لیا؟ علی ظفر کا کہنا ہے کہ اگر وہ پارٹی نہیں ہے تو الیکشن کمیشن کی فہرست پر ان کا نام اور انتخابی نشان کیوں ہے۔

علی ظفر کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن میں سیاسی جماعتیں الیکشن ایکٹ2017 کے سیکشن 202 کے تحت رجسٹرڈ ہیں۔ سنی اتحادکونسل بطورپارٹی رجسٹرڈ ہےاوراسے انتخابی نشان بھی دیا گیا ہے۔

مبر خیبرپختونخوا نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم اس پارٹی کی رجسٹریشن ختم کردیں، اس پر علی ظفر کا کہنا تھا کہ بے شک ختم کردیں لیکن اس کے لیے پراسس کرنا پڑے گا۔

علی ظفر نے دلائل دیے کہ سنی اتحاد کونسل ایک سیاسی جماعت ہے اور ان کے پاس ایک انتخابی نشان ہے۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد ارکان کی شمولیت کے بعد سنی اتحاد کونسل پارلیمانی پارٹی بن گئی ہے۔

ممبر خیبرپختونخوا کا کہنا تھا کہ آپ کہنا چاہ رہے کہ آزاد ارکان ہوں یا پارٹیز سے تعلق ہو سیٹیں ملیں گی، مخصوص نشستوں تو ملیں گی لیکن کس کو ملیں گی یہ الگ بات ہے۔

علی ظفر نے دلائل دیے کہ ہر سیاسی جماعت کے سیٹوں کے تناسب سے مخصوص نشستیں ملیں گی۔

چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ اس میں مخصوص نشستوں کی لسٹ کا ذکر بھی ہے۔

علی ظفر نے دلائل دیے کہ میں آپ سے اختلاف نہیں کروں گا لیکن آپ فارمولا کو تبدیل نہیں کرسکتے۔

ممبر اکرام اللہ کا کہنا تھا کہ اگر ایک پارٹی کے پاس سیٹیں نہیں ہیں تو مخصوص نشستیں کیسے ملیں گی؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ بالکل بھی نہ ملیں لیکن میں ابھی اصول کی بات کررہا ہوں۔

ممبر پنجاب نے سوال کیا کہ اگر آپ کے لوگ سنی اتحاد کونسل میں شامل نہ ہوتے تو فارمولا کیا ہوتا؟ اس پر علی ظفر نے کہا کہ غیر معمولی صورتحال پیدا ہوئی ہے اس پر ماضی میں نہیں سوچا گیا۔

چیف الیکشن کمشنر نے بیرسٹر علی ظفر کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ کل الیکشن کمیشن نے حکمنامہ جاری کیا۔

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ آپ نے ساری پارٹیوں کو نوٹس کرنے کا فیصلہ لیا، شام کو اگر حکمنامہ جاری ہو تو پارٹیز کیسے تیاری کرکے صبح آسکتی ہیں، یہ ایک بے معنی مشق ہوگا۔

اس پر الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ ہم نے صرف متعلقہ پارٹیز کو بلایا ہے ۔

یرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ ایم کیو سیٹیں چاہتی ہیں لیکن انھوں نے درخواست میں سیٹوں کی بات نہیں کی، وہ ایک الگ درخواست دیں تاکہ مجھے پتہ ہو کہ وہ چاہتے کیا ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ میری درخواست تب لگی جب یہ درخواستیں آئیں۔

اس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ آپ کی درخواست پر تین میٹنگز ہوئیں، بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ سماعت کی ضرورت تب آتی ہے جب ذہن میں ابہام ہو۔

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں خدشے کا اظہار کیا کہ انتخابی نشان نہیں ہوگا تو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی، الیکشن کمیشن حکام نے کہا کہ وہ پارٹی جوائن کریں گے تو نشستیں مل جائیں گی۔

چیف الیکشن کمشنر نے ان سے سوال کیا کہ کیا یہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں موجود ہے؟ علی ظفر کا کہنا تھا کہ نہیں یہ بات سپریم کورٹ کے فیصلے میں موجود نہیں ہے۔

چیف الیکشن کمشنرکا کہنا تھا کہ آپ کے وکیل نے بھی یہ کہا تھا کہ انتخابی نشان نہیں ہوگا تو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی، اگر ریکارڈنگز پہ جانا ہے تو بہت کچھ سننا پڑے گا۔

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ غیر معمولی صورتحال پیدا ہوئی اور سب سے زیادہ آزاد امیدوار اسمبلی میں آئے، آزاد امیدواروں نے خیبرپختونخواہ میں بہت زیادہ سیٹیں حاصل کیں۔

چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل نے ترجیحی نشستوں کی فہرست بھی جمع نہیں کرائی، کیا سنی اتحاد کونسل الیکشن کے بعد ترجیحی فہرست جمع کراسکتی ہے؟

ممبر بابر حسن بھروانہ کا کہنا تھا کہ کیا صرف آزاد ارکان کی بنیاد پر ایک سیاسی جماعت کو مخصوص نشستیں دیدیں؟ آزاد ارکان کے بغیر اس وقت سنی اتحاد کونسل کی کوئی حیثیت نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جن جماعتوں کے ارکان نے نشستیں جیتیں ان جماعتوں میں کیوں مخصوص نشستیں تقسیم نہ کریں؟

بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیے کہ آئین کے مطابق سیاسی جماعت کا پارلیمانی ہونے کی کوئی شرط نہیں، مخصوص نشستیں نہ دینے سے سینیٹ الیکشن میں بھی سنی اتحاد کونسل کو نقصان ہوگا۔

بممبر بابر حسن بھروانہ نے سوال کیا کہ ترجیحی فہرست کون دے گا پارٹی سربراہ یا پارلیمانی پارٹی کا سربراہ؟

اس پر بیرسٹر فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ ترجیحی فہرست اس وقت دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ترجیحی فہرست جمع کرانے کا وقت الیکشن سے پہلے گزر چکا ہے۔

چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ قانون میں موجود ہے کے ترجیحی فہرست دینا ضروری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قانون میں یہ تو تحریر نہیں کہ اگر کوئی مقررہ وقت پر فہرست جمع نہیں کرواتا تو وہ بعد میں فہرست دے سکتاہے۔

چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ آپ کی جماعت نے ہمیں تحریری طور پر بتایا ہے کہ وہ الیکشن لڑ رہے ہیں اور نہ انھیں مخصوص نشستوں کی ضرورت ہے، اس پر علی ظفر کا کہنا تھا کہ مگر اب صورت تبدیل ہوگئی اور آزاد امیدواروں نے سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی تو مخصوص نشستیں ملنی چاہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین