Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

سپریم کورٹ نے ریویو آف ججمنٹ ایکٹ کو کالعدم قرار دے دیا

Published

on

سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹ ایکٹ کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اسے کالعدم قرار دے دیا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 19 جون کو ریویو آف ججمنٹ ایکٹ کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔تین رکنی بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔

سپریم کورٹ نے ری ویو آف ججمنٹ ایکٹ کے خلاف درخواستیں قابل سماعت قرار دے دیں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ نے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کیا۔ پارلیمنٹ کو ایسی قانون سازی کا اختیار نہیں تھا۔

سپریم کورٹ نےمتفقہ طورپرفیصلہ سنایا، تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔

پی ٹی آئی سمیت انفرادی وکلاء نےایکٹ چیلنج کیا تھا،سپریم کورٹ نے کیس کی 6 سماعتیں سننےکےبعد 19جون کوفیصلہ محفوظ کیاتھا

ایکٹ کے تحت آرٹیکل 184 تین کے مقدمات کے فیصلے کیخلاف متاثرہ فریق کو اپیل کا حق دیا گیا تھا،ایکٹ کے تحت اپیل سننے والے بنچ میں ججز کی تعداد مرکزی کیس سننے والے سے زیادہ ہونا لازم ہے،ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ میں اپیل کیلئے فریقین کو نیا وکیل بھی کرنے کی اجازت ہوگی، ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کے تحت عوامی مفاد کے مقدمات میں نظرثانی اپیلیں لاجر بنچ سنے گا

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن نے 23 مارچ 2023 کو پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات ملتوی کر دیے تھے جو 30 اپریل بروز کو شیڈول تھے، اس حوالے سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ فیصلہ آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کیا گیا۔

فیصلے کے ردعمل میں تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کے لیے 25 مارچ کو سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

واضح رہے کہ پنجاب انتخابات کیس میں وفاقی حکومت کی جانب سے ریویو آف ججمنٹ ایکٹ پیش کر کے کیس سننے والے بینچ پر اعتراضات اٹھائے گئے تھے اور نئے قانون کے تحت عوامی مفاد کے مقدمات میں نظرثانی کی اپیلوں کو لارجر بینچ میں سننے کا قانون بنایا گیا تھا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کیے جانے والے ریویو آف ججمنٹ ایکٹ کیس کی آخری سماعت کے تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ اٹارنی جنرل اور درخواست گزاروں نے اپنے دلائل مکمل کر لیے ہیں۔

سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر بل 26 مئی کو صدر مملکت عارف علوی کے دستخط کے بعد قانون بن گیا تھا جس کے بعد آرٹیکل 184/3کے تحت دیے گئے فیصلوں پر نظر ثانی درخواست دائر کرنے کا حق دیا گیا تھا۔ مذکورہ بل 14 اپریل کو قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد پانچ مئی کو سینیٹ سے بھی منظورکر لیا گیا تھا۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین