Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل، 9 رکنی بینچ ٹوٹ گیا، کوئی راستہ نکالیں گے، سماعت آج ہی ہوگی، چیف جسٹس

Published

on

فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات چلائے جانے کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والا 9 رکنی بینچ ٹوٹ گیا، نامزد چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے متعلق درخواستوں کے فیصلے تک سماعت سے انکار کردیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کوئی اور راستہ نکالتے ہیں، ڈیڑھ بجے دوبارہ سماعت ہوگی۔

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے لیے چیف جسٹس  عمر عطابندیال نے اپنی سربراہی میں نو رکنی بینچ بنیا تھا جس میں نامزد چیف جسٹس، جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس سردار طارق، جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس منصور علی شاہ ،جسٹس منیب اختر،جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل تھے۔

آج درخواستوں پر سماعت شروع ہوئی تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئیں میں نے کچھ کہنا ہے، میں اپنی اردو قومی زبان میں بات کروں گا، سپریم کورٹ رولز پڑھیں کیا کہتے ہیں،آئین سپریم کورٹ کو سماعت کا اختیار دیتا ہے، جج کا حلف کہتا ہے کہ آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کروں گا،پریکٹس اینڈ پروسیجر ایک قانون ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے مطابق تین رکنی کمیٹی سماعت بارے فیصلہ کرے گی، مجھے رات کو آٹھ بجے کیس کی سماعت کا بتایا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو قانون بننے سے پہلے آٹھ رکنی بنچ نے روک دیا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق کیس کو جولائی تک ملتوی کیا گیا،پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس سے متعلق رائے نہیں دونگا کیوں اس بنچ کا حصہ نہیں ہوں، تعجب ہوا کہ کل رات 8 بجے کاز لسٹ میں میرا نام آیا، مجھے دکھ،صدمہ اور تعجب ہوا کہ رجسٹرار نے 15 مارچ کا میرا فیصلہ نظرانداز کرنے کا سرکلر جاری کیا،اس سے پہلے ایک ازخود نوٹس میرے بنچ میں سماعت کیلئے مقرر ہوا، میں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل 184 تین میں رولز بنائے جائیں، میرے فیصلے کو واپس لینے کا حکم جاری ہوا کیا یہ سپریم کورٹ کی عزت ہے، میرے نوٹ کو سپریم کورٹ کی ویب سائیٹ سے ہٹا دیا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں آئین و قانون اور حلف کے مطابق فیصلے کروں گا،یہ وقعت تھی سپریم کورٹ کے فیصلے کی، پھر سپریم کورٹ نے 6 ممبر بنچ بنا کر سرکلر کی توثیق کی اور میرا فیصلہ واپس لیا، میرے دوست یقینا مجھ سے قابل ہیں لیکن میں اپنے ایمان پر فیصلہ کروں گا، اس چھ ممبر بنچ میں اگر نظر ثانی تھی تو مرکزی کیس کا کوئی جج شامل کیوں نہیں تھا، اب تو نوٹ ویب سائٹ سے ہٹائے جاتے ہیں جس کی غلط خبریں چلتی ہیں، بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے چیمبر ورک کو ترجیح کیوں دی، بنچز کی تشکیل سے متعلق ایک قانون بنا دیا گیا،کسی پر انگلی نہیں اٹھا رہا لیکن میرے پاس آپشن تھا کہ میں حلف کی پاسداری کروں یا عدالتی حکم پر بنچ میں بیٹھوں، میری دانست میں قانون کو مسترد کیا جا سکتا ہے معطل نہیں کیا جا سکتا،حکومت پاکستان نے انکوائری کمیشن بنایا مجھے اس کا سربراہ بنایا گیا، 19 مئی کو سپریم کورٹ کے پانچ ممبر بنچ نے انکوائری کمیشن کو کام سے روک دیا، میں نے نوٹ میں کہا کہ میرے ساتھیوں نے قانون معطل کر کے مجھے عجیب کشمکش میں ڈال دیا ہے، انکوائری کمیشن نے نوٹس ہونے پر جواب بھی جمع کرایا،میں واضح کر دوں کہ کسی فیصلے کی مخالفت نہیں کر رہا صرف طریقہ کار کی بات کر رہا ہوں، آج کے نو رکنی بنچ کو بنچ تصور نہیں کرتا، پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق کیس کا فیصلہ کرے، مجھے جو درخواست رات گئے موصول ہوئی اس میں عمران خان نیازی کی بھی درخواست تھی،عمران خان کی درخواست پر اعتراض لگایا اور انہوں نے پہلے درخواست دائر کی تھی، آج کاز لسٹ میں آخر میں آنے والی درخواست سب سے پہلے مقرر کر دی گئی، میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ ہونے تک کسی بنچ میں نہیں بیٹھوں گا،سب سے معزرت چاہتا ہوں کہ ججز کو زحمت دی، میں بنچ سے اٹھ رہا ہوں،یہ عدالت نہیں ہے جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا فیصلہ نہیں ہوتا۔

ان کے بعد جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ میں بھی جسٹس قاضی فائز عیسی کے موقف کی تائید کرتا ہوں، پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجرل قانون کا فیصلہ ہونا چاہیے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا فیصلہ ہونے سے قبل سپریم کورٹ کوئی کیس نہیں سن سکتی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے سپریم کورٹ رولز بنانے کا کہا اس پر کچھ نہیں کیا گیا،اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ محترم ہیں مگر مزید بات کر کے شرمندہ نہ کریں،میں اور جسٹس سردار طارق مسعود اس کشمکش میں تھے کہ کیس سننے سے معذرت کریں یا نہیں؟

درخواست گزار سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ اگر آپ کیس نہیں سنیں گے تو 25 کروڑ عوام کہاں جائے گی؟۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ممکن ہے قاضی صاحب کو اطلاع نہ ہو کہ حکومت نے قانون پر مشاورت کیلئے وقت مانگا ہوا ہے،دو ججز نے سماعت نہ کرنے کا کہا ہے ہم ان کا احترام کرتے ہیں،اس کیس کا کچھ اور راستہ نکال لیں گے،دو ججز نے سماعت نہیں کرنی تو ہم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔

درخواست گزار وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ گھر کے تحفظ کیلئے کیس سن لیجیے، آپ سپریم کورٹ میں مل بیٹھ کر فیصلہ کرنے کے پابند ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دو معزز سینئیر ججز نے اعتراض کیا ہے، ممکن ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر حکم امتناع ختم ہو جائے، اس عدالت کی روایت کے مطابق دو سینئر ججز کے اعتراض کے بعد تکرار نا کریں، ان درخواستوں کا کوئی اور حل نکالتے ہیں۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ اس وقت ہم نو ججز ہیں ہم فیصلہ کر دیتے ہیں اس کیس میں تو کل کو اپیل پر فیصلہ کون کرے گا؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اعتزاز احسن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کی بہت قدر کرتا ہوں،یہ نہیں ہو سکتا کہ میں اپنے حلف کی خلاف ورزی کر دوں،یہ کسی کا گھر نہیں ہے سپریم کورٹ ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے بھی یہ بنچ اپنے آئین کے تحت اور حلف کے مطابق بنایا۔

اس کے بعد ججز اٹھ کر چلے گئے۔ عدالتی عملے نے بتایا کہ کیس کی دوبارہ سماعت ڈیرھ بجے ہوگی تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ کیس کتنے رکنی بینچ سنے گا۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین