ٹاپ سٹوریز

نظرثانی رولز کے لیے آئینی ترمیم ہونا چاہئے تھی، ہمیں حکومتی طریقہ کار سے اتفاق نہیں، سپریم کورٹ

Published

on

پنجاب انتخابات کے فیصلے پر الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل اور ریویو آف آرڈر اینڈ ججمنٹ ایکٹ سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بنچ کا حصہ ہیں۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کیا تو کمرہ عدالت میں پرندوں کی چہچہانے کی آواز سنائی دی، اس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ چڑیا شاید آپ کیلئے پیغام لائی ہیں۔

اٹارنی جنرل نے مسکراتے ہوئے کہا کہ امید ہے پیغام اچھا ہوگا،چیف جسٹس نے جواب دیا کہ وہ زمانہ بھی تھا جب کبوتروں کے ذریعے پیغام جاتے تھے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں پانچ نکات پر دلائل دونگا، مفاد عامہ کے دائرہ کار کے ارتقاء پر دلائل دونگا،پاکستان میں نظرثانی کے دائرہ کار پر عدالت کی معاونت کرونگا،مقننہ کے قانون سازی کے اختیارات پر معاونت کرونگا،بھارتی سپریم کورٹ کے نظرثانی کے دائرہ اختیار اور درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دونگا،1973 کے آئین میں آرٹیکل 184 تین کے اوریجنل اختیارات کو بڑھایا گیا ہے۔ اس آرٹیکل 184 تین کے تحت پہلا فیصلہ منظور الہی کیس میں آیا،منظور الہی کے بھائیوں نے سندھ اور بلوچستان میں بھی درخواستیں دائر کیں، گرفتاری کے بعد منظور الہی کو قبائلی علاقہ میں لے جایا گیا، درخواستوں میں منظور الہی نے اپنی بازیابی کی استدعا کی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالتی دائرہ اختیارات کو بڑھانا غلط بات نہیں،ہم مانتے ہیں وقت کے ساتھ رولز بھی تبدیل ہوتے رہے ہیں، مگر نظرثانی میں قانون کے ذریعے اپیل کا حق دینا درست نہیں،اگر نظرثانی رولز کو تبدیل کرنا بھی تھا تو آئینی ترمیم ہونی چاہیے تھی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ حکومت ازخود نوٹس کے فیصلوں کیخلاف اپیل کا دائرہ اختیار وسیع کرنا چاہتی ہے تو موسٹ ویلکم، لیکن آئینی ترمیم کے ذریعے اپیل کا حق دیا جاسکتا،یہ حکومت کی جلد بازی میں کی گئی قانون سازی ہے، ہمیں حکومت کے اس طریقہ کار سے اتفاق نہیں،اپیل اور نظرثانی میں بہت فرق ہوتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلے پڑھ کر بتاؤں گا کہ گزشتہ سالوں میں 184 تین کا دائرہ اختیار کیسے بڑھتا گیا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ سے یہ جاننے میں دلچسپی ہے کہ 184 تین کے ساتھ نظرثانی کا دائرہ اختیار کیوں اور کیسے بڑھنا چاہیے؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کمہا کہ آپ درخواست گزار کا موقف بھی ذرا سمجھیں،اس طرح کی قانون سازی سے تو عدالت کے معاملات میں مداخلت ہوگی۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میرے نزدیک تو سپریم کورٹ کے تمام فیصلوں کیخلاف نظرثانی کا پیمانہ ایک ہے، حکومت جو قانون لائی ہے اس میں نظرثانی کا الگ الگ پیمانہ ہے،عدالت نے مختلف ادوار میں آرٹیکل 184 تین کے دائرہ اختیار کو مختلف اندار میں سمجھا ہے،امریکی سپریم کورٹ نے بھی بنیادی حقوق کی عملداری کو مختلف ادوار میں الگ طرح سے پرکھا،ہوسکتا ہے آج سے دو ماہ،6 سال یا 20 سال بعد یہ عدالت بھی 184 تین کے اختیار کو اور طرح سے سمجھے، ایسے میں آپ کے اس ایکٹ کا مستقبل کیا ہوگا؟

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کل مزید آپکو سنیں گے،آپ کے دلائل بہت دلچسپ ہیں،آپ مزید کتنا مزید وقت لیں گے۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرٹیکل 184/3 پر دلائل کے بعد موجودہ قانون سازی سے متعلق دلائل دوں گا۔

کیس کی سماعت کل جمعہ  گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version