ٹاپ سٹوریز
ترکی الیکشن: یورپ اور مغربی دنیا اردوان کوکیوں ہارتے دیکھنا چاہتے ہیں؟
مغربی دنیا کے معتبر ترین تصور ہونے والے میگزین، دی اکانومسٹ، نے کسی بھی منتخب سربراہ ریاست کے لیے نفرت کے اظہار کے لیے اپنے ہی بنائے تمام ریکارڈ توڑ دیئے اور پچھلے ہفتے کے ایڈیشن میں ترک الیکشن پر لکھا کہ ترکی کے الیکشن اس سال ہونے والے دنیا بھر کے انتخابات میں سب سے اہم ہیں، یہ الیکشن نہ صرف ترکی کے مستقبل بلکہ جمہوریت کے مستقبل کا بھی فیصلہ کریں گے، سب سے اہم یہ کہ جب دنیا بھر میں، ہنگری سے بھارت تک، سٹرانگ مین حکمرانی عروج پر ہے، صدر اردوان کو اقتدار سے پرامن طورپر نکالا جانا جمہوریت پسندوں کے اظہارہوگا کہ سٹرانگ مین کوبھی شکست ہوسکتی ہے۔
کسی بھی میڈیا کی طرف سے کسی ملک کے انتخابات پر ایسا تبصرہ احمقانہ ہے۔ ترکی کے صدر اردوان ایک سخت گیر حکمران تو ہو سکتے ہیں لیکن ترکی آمرانہ ملکوں جیسا نہیں اور ترکی میں آزاد اورشفاف الیکشن ہوتے ہیں۔
ترکی کا اتوارکوہونے والا الیکشن بھی آزادانہ تھا،مقبولیت پسندی اور تقسیم عروج پر ہے، اپوزیشن کی سرکاری میڈیا میں رسائی بھی مساوی نہیں اس کے باوجود یہ الیکشن عمل آزادانہ اور سخت ترین الیکشن تھا۔ اس کی مثال 2019 کا استنبول کا الیکشن ہے، ترکی کے کی سپریم الیکشن کونسل نے مقابلہ تقریبا برابر رہنے پر اپوزیشن امیدوار اکرم امام اولو کی جیت منسوخ کردی تھی لیکن رن آف الیکشن میں اکرم امام اولو ہی جیتے تھے اور ان کی کامیابی میں الیکشن کونسل رکاوٹ نہیں بنی تھی۔
ترکی کے الیکشن میں تمام جماعتوں کی پولنگ سٹیشنوں پر نمائندگی موجود ہے، الیکشن کے ہر مرحلے میں نمائندگی برقرار رہی، گنتی، بیلٹ باکسز کی ٹرانسپورٹ اور حتمی گنتی، ہر مرحلہ میں تمام جماعتوں کے نمائندے موجود ہیں۔
صدر اردوان،جنہیں، دی اکانومسٹ، ایک آمر سے تشبیہ دے رہا ہے،ساتواں آزاد الیکشن لڑ رہے ہیں، ان کا پہلا انتخابی معرکہ 1994 کا میئر استنبول کا الیکشن تھا۔
دی اکانومسٹ نے صرف اس الیکشن میں ہی اردوان کو ڈکٹیٹر نہیں کہا بلکہ ایک عشرے میں دس میگزین کور اس کے لیے مختص کئے،جن میں اردوان کو ایک ڈکٹیٹر سے تشبیہ دی گئی۔
دی اکانومسٹ اور مغرب کو ڈکٹیٹرز سے اتنی ہی نفرت ہے تو مصر کے عبدالفتاح السیسی نے حال ہی میں81 صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے نام دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کئے ہیں، اب یہ فہرست 6300 ناموں پر مشتمل ہے۔ اس فہرست میں صرف ایک میڈیا ہاؤس سے منسلک 32 صحافیوں کے نام شامل ہیں۔ 60 ہزار سیاسی قیدی مصر کی جیلوں میں صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں اور دوران حراست ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ اس بارے میں ایک لفظ تک نہیں کیا جاتا، انسانی حقوق اور جمہوریت کے علمبردار اس پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
دی اکانومسٹ، صدر اردوان کے خلاف مہم میں اکیلا نہیں، جرمنی کا سوشل ڈیموکریٹ لبرل ازم کا علمبردار جریدہ، شپیگل، اس نے صدر اردوان کی تصویر شائع کی جس میں وہ ایک شکستہ تخت پر بیٹھے ہوئے اور ان کے پیچھے اسلام کی علامت تصور ہونے والا ، ہلال، دکھایا گیا جو دو ٹکڑے ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ لکھا گیا کہ ترکی کے سو سالہ وجود کے عرصے میں ترک ریاست ایک دو راہے پر ہے، اگر اردوان دوسری بار صدر منتخب ہوجاتے ہیں تو مبصرین کو ڈر ہے کہ وہ ملک کو آمریت میں تبدیل کر دیں گے، تاحیات حکمران بن جائیں گے،انتخابات کا خاتمہ کردیں گے۔
کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اگر جرمن جریدے نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو یہودیت کے شکستہ تخت پر، ستارہ داؤدی کو دو ٹکڑے ہوتے دکھایا ہوتا تو کس طرح کا شور مچتا۔
فرانس کے جریدے، دی پوائنٹ، نے صدر اردوان کا روس کے صدر پیوٹن سے موازنہ کرتے ہوئے لکھا کہ دونوں شخصیات سلطنت کی بحالی کا خواب رکھتی ہیں، دونوں نے مذہب کو ہتھیار بنایا اور دونوں نے دوسرے ملکوں پر حملے کئے۔ دی پوائنٹ نے جنوبی قبرص پر ترکی کے حملے کا حوالہ دیا لیکن جنوبی قبرص پر حملہ 1974 میں بلند اجود کے دور میں ہوا جو مصطفیٰ کمال کی پارٹی کے تھے۔
ترکی نے شام اور لیبیا میں بھی فوجی کارروائی کی، لیکن کیا کسی کو یاد ہے کہ امریکی، روسی اور ایرانی فوجی مداخلت بھی شام میں ہوئی، کیا مغربی ملکوں نے شام کے صدر بشار الاسد کو اقتدار سے نکالنے کے لیے کی گئی ان فوجی کارروائیوں کی حمایت نہیں کی؟ ۔
لیبیا میں ترکی کی ڈرون کارروائیوں سے پہلے روس، عرب امارات، مصر بھی طرابلس پر قبضے کی کارروائیوں میں شامل نہیں تھے؟
اردوان یورپی جمہوریت کے لیے خطرہ نہیں دراصل وہ اسلام پسند ہیں جس کو یورپ خطرہ سمجھتا ہے۔ اس الیکشن میں اگر اردوان کو شکست ہوئی تو اس کی وجہ حالیہ مہنگائی ہوگی، یہ نہیں کہ وہ جمہوریت کے لیے خطرہ ہیں یا تاحیات حکمران بننا چاہتے ہیں۔
-
کھیل1 سال ago
ورلڈ کپ میں ٹیم کی بدترین کارکردگی، سری لنکا نے اپنا کرکٹ بورڈ برطرف کردیا
-
کھیل1 سال ago
کم عمر لڑکی کی سیکس ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے پر ریئل میڈرڈ کے 3 کھلاڑی گرفتار
-
تازہ ترین7 مہینے ago
چیئرمین پی سی بی دو طرفہ سیریز پر بات کرنے آئرلینڈ پہنچ گئے
-
پاکستان7 مہینے ago
مریم نواز سے گورنر پنجاب کی ملاقات،صوبے کی ترقی کے لیے اہم امور پر تبادلہ خیال
-
ٹاپ سٹوریز1 سال ago
آئی ایم ایف بورڈ سے معاہدہ منظور،1.2 ارب ڈالر کا فوری اجرا ممکن، باقی رقم دو سہ ماہی جائزوں سے مشروط
-
کالم2 سال ago
اسلام میں عبادت کا تصور
-
ٹاپ سٹوریز6 مہینے ago
اسحاق ڈار سے امریکی سفیر کی ملاقات، سکیورٹی اور اقتصادی تعاون سمیت دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال
-
تازہ ترین8 مہینے ago
پی سی بی نے انٹرنیشنل ٹیموں کے قیام کے لیے عمارت خرید لی