Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

دنیا

کیا ملک کی معاشی بدانتظامی صدر اردوان کو شکست دے دے گی؟

Published

on

ترکی میں چودہ مئی کو صدارتی الیکشن کے لیے پولنگ ہو رہی ہے اور اپوزیشن کی چھ بڑی جماعتیں کمال قلیچ دار اوغلو کو صدارتی امیدوار بناکر مہنگائی کو الیکشن مہم کا مرکزی نکتہ بنائے ہوئے ہیں۔ کیا صدر رجب طیب اردوان کو ملک کی معاشی بدانتظامی شکست سے دوچار کر دے گی؟ ۔ ماہرین ابھی اس پر متفق نظر نہیں آتے اور ان کے خیال میں صرف مہنگائی اس الیکشن پر اثرانداز نہیں ہو سکتی  بلکہ ملک کے دیگر سماجی مسائل بھی اہمیت رکھتے ہیں۔

صدر اردوان کی توجہ بھی معاشی وعدوں پر ہی مرکوز ہے اور گیارہ اپریل کو انقرہ کے ایک اسٹیڈیم میں الیکشن مہم کے آغاز پر صدر اردوان نے ووٹرز سے کہا تھا کہ وہ مہنگائی کی شرح کو دوبارہ سنگل ڈیجٹ میں لائیں گے اور ملک کو معاشی مسائل سے نکالیں گے۔

ترکی شرح نمو مضبوط ہے لیکن مہنگائی کو واقعی ہی نیچے لانے کی ضرورت ہے، ترکی میں  سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی کی شرح سال بہ سال 50 فیصد رہی ہے جبکہ پچھلے سال اکتوبر میں مہنگائی کی شرح 85 فیصد تک پہنچ گئی تھی جو پچیس سال کی بلند ترین شرح ہے۔

کچھ لوگوں کا اصرار ہے کہ مہنگائی کی حقیقی شرح سرکاری اعداد و شمار سے زیادہ ہے، یہی خیال سینٹ لارنس یونیورسٹی اور واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ  کے ترک امور کے ماہر ہارورڈ ایزنسٹیٹ کا بھی ہے، ان کا کہنا ہے کہ ترک حکومت اعداد و شمار سے کھیل رہی ہے، روزمرہ امور میں ترک شہریوں کا تجربہ اس سے زیادہ تلخ ہے۔

مارچ میں ترک کرنسی لیرا امریکی ڈالر کے مقابلے میں تاریخ کی پست ترین  سطح پر چلی گئی تھی، 2018 میں ترک لیرا کی قدر میں گراوٹ نے ترک معیشت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔

ماہرین معاشی بحران کا ذمہ دار صدر اردوان کے اس اعتقاد کو ٹھہراتے ہیں کہ بلند شرح سود مہنگائی کو ہوا دیتی ہے حالانکہ کے تمام شواہد اس کے برعکس ہیں ۔صدر اردوان نے  ملک کے  معاشی معاملات کے ذمہ داروں کوبار بار شرح سود کم کرنے پر اکسایا اور دباؤ ڈالا

 واقعی خوفناک

ترکی کی آج کی معاشی حالت اردوان کے ابتدائی سالوں کی معاشی حالت سے بہت مختلف ہے، اردوان جب اقتدار میں ۤئے تھے مغربی تجزیہ کار انہیں مستقبل کی سوچ رکھنے والے اصلاح کار کے طور پر سراہتے تھے۔

اردوان کی اعتدال پسسند، اسلام پسند جماعت اے کے پی نے 2003 کے ترکی کے انتخابات میں جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کے سیکولر ملک میں انتخابی کامیابی حاصل کر کے غیر معمولی کارنا مہ انجام دیا تھا۔ اردوان اور اے کے پی کی اس کامیابی کی بڑی وجہ ترکی کا 2001 کا معاشی بحران تھا۔  اردوان جب 2003 میں وزیراعظم بنے تو انہوں نے معیشت کو بحال کرنے اور اسے پاور ہاؤس بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔

آئی ایم ایف کی حمایت اور یورپ کے بہت معاشی حالات سے اردوان کے معاشی منصوبے کو مدد ملی اور 2002 سے 2007 تک ترکی جی ڈی پی کی شرح نمو اوسطا 7.2  فیصد رہی۔  اردوان کا بنیادی حلقہ اثر  محنت کش طبقہ، ترکی  کا ایشیائی حصہ اوراناطولیہ کے قلب میں بسنے والے قدامت پسند مسلمان تھے۔

پچھلے پانچ برس میں افراط زر اور کرنسی کے  بحران نے ترک معاشرے کے تمام طبقات کو  شدید متاثر کیا ہے۔ معاشی ماہرین  کا کہنا ہے کہ ترکی کے وہ شہری جو خود کو متوسط طبقہ سمجھتے تھے انہیں بنیادی معیار زندگی کو برقرار رکھنے میں شدید دشواری کا سامنا ہے۔صرف دسترخوان پر کھانا چننا ہی ایک بڑی جدوجہد بن چکا ہے۔

مشکوک انتخابی سروے

ترک میڈیا میں شائع ہونے والے سروے بتاتے ہیں کہ صدر اردوان معاشی حالات کی وجہ سے حمایت کھو رہے ہیں اور قلیچ دار اوغلو کو ان پر معمولی برتری حاصل ہے۔ ایک تازہ سروے میں بتایا گیا کہ صدر اردوان کو 41.1 فیصد اور قلیچ دار اوغلو کو 42.6 فیصد کی حمایت حاصل ہے۔

فنانشل ٹائمز میں شائع ہونے والی  رپورٹ میں کونیا کے ایک ووٹر کے جذبات کچھ یوں بیان کئے گئے ْ  میں اے کے پی کا حامی ہوں لیکن اب تبدیلی چاہتا ہوں انہوں نے معیشت کا بیڑی غرق کر دیا ہےٗ۔ اس کے ساتھ ہی اس ووٹر نے یہ بھی کہا کہ اسے حزب اختلاف پر بھی بھروسہ نہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ لوگ اردوان سے مایوس تو ہیں لیکن حزب اختلاف  کے بارے میں بھی شکوک و شبہات پھیلے ہوئے ہیں ۔ کچھ سروے نتائج میں قلیچ دار اوغلو کی برتری دکھانا بھی مشکوک ہے۔

ہاورڈ ایزنسٹیٹ کہتے ہیں کہ وہ ان سروے پر اعتبار نہیں کر رہے اور غیرملکی مبصرین کی بڑی تعداد بھی ان سروے نتائج پر اعتبار نہیں کرتی، معاشی صورت حال خراب ہے اور ممکن ہے اردوان کے جہاز سے لوگ چھلانگیں لگا دیں لیکن یہ ضروری بھی  نہیں۔  اب بھی ایسا لگتا ہے کہ اے کے پی کا ووٹر کچھ نیا کرنے کے خیال کو چھوڑ کر واپس آ جائے۔

یہ یاد رکھنا چاہئے کہ مغربی مبصرین نے 2018 کے الیکشن میں بھی صدر اردوان کے متعلق غلط اندازے لگائے تھے اور اس وقت ان کے حریف محرم انیس کی پرجوش الیکشن مہم کو دیکھتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ صدر اردوان کو کم از کم الیکشن کے دوسرے راؤنڈ میں دھکیلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ بالآخر صدر اردوان نے پہلے ہی راؤنڈ میں 53 فیصد سے زیادہ ووٹ لے لیے تھے  اور دوسرے راؤنڈ کی نوبت ہی نہیں آئی تھی۔

ثقافتی جنگ

معیشت کسی بھی انتخابی معرکے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے اور یہ سیاست کا قدیم ترین اصول ہے اور اس اصول کو  بہترین طریقے سے  بل کلنٹن کی  انتخابی  حکمت عملی کے سربراہ کارویل نے یوں بیان کیا تھا  ْ یہ معیشت ہے، احمق!ٌ  ۔  اس انتخابی منترے اور حکمت عملی نے صدر جارج ڈبلیو بش کو شکست سے دوچار کیا تھا لیکن ضروری نہیں کہ ہر الیکشن امریکا کے 1992 کے الیکشن جیسا ہو۔  بالخصوص حالات اس وقت زیادہ مختلف ہوتے ہیں جب  سیاسی عصبیت ملک کے ماضی اور مستقبل  سے جڑی ہو۔

ترک معاشرے میں 1920 سے ہی ایک دراڑ موجود ہے اور یہ دراڑ تب آئی تھی جب جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال پاشا نے اسلام اور سیاست کے درمیان تعلق کو  بالکل ختم کیا تھا۔

اقتدار میں آنے کے بعد صدر اردوان نے آہستہ آہستہ مگر یقینی طور پر ترک سیاست  اور عام زندگی کے قلب میں اسلام کو دوبارہ سے داخل کر دیا ہے۔صدر اردوان نے کمال ازم ( مصطفیٰ کمال پاشا کا سیکولر فلسفہ)  اور ڈیپ سٹیٹ، فوج عدلیہ گٹھ جوڑ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے۔

ترکی کے سیکولرز کے 2013 کے بڑے شہروں میں احتجاج کو غیرملکی میڈیا نے بہت اہمیت دی لیکن صدر اردوان نے اپنے لاکھوں سپورٹرز میں مقبولیت برقرار رکھی اور ان کے ووٹروں نے پرانی سٹیبلشمنٹ پر اردوان کی فتح کا جشن منایا۔

ترکی میں اس ثقافتی جنگ  پچھلے ایک عشرے کی ٹیکنالوجی تبدیلیوں سے مزید شدت اختیار کر چکی ہے۔  سوشل میڈیا کے دور میں  سیاسی شناخت اور نظریات  ووٹنگ کے رویوں  میں پہلے سے زیادہ کردار ادا کرتے ہیں۔  سوشل میڈیا کے کردار کو امریکا، فرانس اور برطانیہ کے انتخابات سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔

اپوزیشن بلاک کئی متضاد خیالات کی حامل جماعتوں پر مشتمل ہے لیکن صدارتی امیدوار قلیچ دار اوغلو نے  اس ثقافتی جنگ پر اپنے پیشروؤں کی نسبت زیادہ پریکٹیکل موقف اپنایا ہے۔ ترکی کی سیاست  میں خواتین کا اسکارف انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اتاترک  نے 1920 میں اسکارف اوڑھنے کی حوصلہ شکنی کی تھی اور پھر ان کے بعد آنے والوں نے  دھیرے دھیرے سرکاری اداروں میں سکارف پر پابندیاں متعارف کرائیں اور اردوان نے کئی مراحل میں ان پابندیوں کو ختم کیا۔

اپوزیشن کے صدارتی امیدوار کمال قلیچ دار اوغلو   نے نہ صرف اعتراف کیا ہے کہ ماضی میں سکارف پر پابندی لگانا غلطی تھی بلکہ  انہوں نے خواتین کے  سکارف اوڑھنے کے حق کے لیے کی گئی آئینی ترمیم کو بھی برقرار رکھنے کی تائید کی ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین