تازہ ترین
خواجہ آصف کی کمزور یادداشت
سیاست میں نہ تو کوئی مستقل رفیق ہوتا ہے نہ ہی رقیب، بلکہ کب دوستی مخالفت میں تبدیل ہو جائے اس بارے میں کوئی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا، شائد اسی لیے سیاست میں کہا جاتا ہے کہ کل کے دوست آج کے دشمن بن سکتے ہیں اور اس میں کتنا وقت لگے اس بارے میں کہنا ذرا مشکل ہے۔
ملکی سیاست میں کئی ایسے ادوار آئے جب یہ رقابت، رفاقت میں تبدیل ہوئی، ایسے سیاسی مخالف جن کے بارے میں کوئی تصور نہیں کرسکتا تھا ان کی سیاسی دوریاں کبھی ختم ہونگی اور وہ اس قدر قریب آجائیں گے۔ سیاسی دوستیاں اور مخالفتیں زیادہ دیر نہیں قائم رہتی۔
اس سیاسی قول نے اُس وقت جھنجھوڑا جب وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں مسلم لیگ نون میں رہنے والے گوہر ایوب کے والد اور عمر ایوب کے دادا فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کو قبر سے نکال کر پھانسی دینے کا مطالبہ کر دیا۔ خواجہ آصف نے یاد دلایا کہ جنرل ایوب خان پہلے جرنیل تھے جنہوں نے ملک میں مارشل لاء لگایا اور اکتوبر 58 کو حکومت کو چلتا کیا۔
وزیر دفاع یہ بات مطالبہ کرتے ہوئے بھول گئے کہ وہ جنرل پرویز مشرف کو دی جانے والی سزا پر کبھی عمل درآمد نہیں کرا سکے۔ اسپشل کورٹ کے ایک جج جسٹس وقار سٹیھ نے جنرل پرویز مشرف کو سزا سناتے ہوئے اضافی نوٹ میں لکھا تھا سابق جرنیل کو قبر سے نکال کر پھانسی دی جائے۔
خواجہ آصف نے یہ ذاتی نوعیت کا حملہ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کی اُس تقریر کے بعد کیا جب اپوزیشن اور ایوب خان کے ہوتے نے یہ مطالبہ کیا کہ حمود الرحمان رپورٹ، سانحہ اوجڑی کیمپ کی رپورٹ اور ایبٹ کمیشن کی رپورٹ کو پبلک کیا جائے۔
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں وزیر دفاع اور اپوزیشن لیڈر اپنے اپنے مطالبات میں درست ہیں لیکن حیرت اس بات کی ہے خواجہ آصف کو یہ بات اُس وقت یاد نہیں آئی جب ایوب خان کا بیٹا پہلے نواز نواز شریف کی پہلی حکومت میں سپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوا اور نواز شریف کی دوسری حکومت میں گوہر ایوب خان نواز شریف کے وزیر خارجہ تھے۔
نواز شریف جب تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے تو گوہر ایوب کے بیٹے یعنی ایوب خان کے پوتے اُس کابینہ میں وزیر خزانہ تھے۔ خواجہ آصف کی یادداشت کچھ اچھی نہیں لگتی۔ ایوب خان کے دور میں وزیر خارجہ رہنے والے ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت پیپلز پارٹی کی وجہ سے آج مسلم لیگ نون اقتدار میں ہے۔ ایوب خان کی کنگ پارٹی کے ایک عہدے دار ظہور الٰہی بھی تھے اور آج ان کے بیٹے اور پوتے مسلم لیگ نون کے اتحادی ہیں۔
ملک میں واحد جرنیل جنرل پرویز مشرف تھے جن کا آئین توڑنے پر ٹرائل ہوا اور عدالت نے انہیں سزا بھی سنائی لیکن مسلم لیگ نون اس سزا پر کبھی عمل نہ کرسکی۔ اس سزا میں یہ بھی شامل تھا کہ جنرل پرویز مشرف کی میت کو قبر سے نکال کر پھانسی دی جائے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کبھی نواز شریف کی کابینہ میں ضیاء الحق کے بیٹے کی شمولیت پر اعتراض نہیں کیا۔ کیا ضیاء الحق ایک آمر نہیں تھا؟ وزیر دفاع نے جنرل ایوب خان کی پھانسی کا مطالبہ 13 مئی کو کیا۔ 46 برس پہلے اسی دن 1978 کو ملک کے چار صحافیوں میں سے تین کو کوڑے مارے گئے۔ مسعود اللہ خان صاحب کو اُن کی معذوری کی وجہ سے کوڑے نہیں مارے گئے۔ کیا آپ نے اسمبلی کے فلور پر کبھی اس کی مذمت کی؟
12 مئی گزرے ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا، اُس دن پر جنرل پرویز مشرف کے ایما پر ایک سیاسی جماعت نے جو کچھ کیا وہ تو آپ کو یاد ہوگا اور وہ جماعت ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ نون کی اتحادی ہے۔آپ نے اس سیاسی جماعت کیخلاف کیا کارروائی کی؟ مسلم لیگ نون وہ جماعت تھی جو وکلا تحریک میں پیش پیش تھی۔
خواجہ آصف کے والد خواجہ صفدر بھی ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کے سربراہ رہے۔ کیا خواجہ صاحب نے کبھی اس پر افسوس کا اظہار کیا؟ وزیر دفاع نے کبھی اس بات پر معافی مانگی کہ ان کی 2018 میں سیالکوٹ کی نشست جنرل قمر جاوید باجوہ کے فون کے طفیل ملی۔ خواجہ آصف آج جس حکومت کے وزیر دفاع ہیں اس کے بارے میں عام کہا جاتا ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کی چھتری کے تلے قائم ہے۔
جنرل ایوب خان کو قبر سے نکال کر اب پھانسی دینا ممکن نہیں ہے لیکن آج بھی وزیر دفاع خواجہ آصف یہ کرسکتے ہیں کہ وہ حمود رحمان کمیشن رپورٹ کو شائع کرا دیں تاکہ قوم کو یہ معلوم ہو جائے ملک ٹوٹنے کا اصل ذمہ دار کون تھا۔
خواجہ آصف کو سانخہ اوجڑی کیمپ کی تحقیقات کی رپورٹ سامنے لانی چاہئے اور یہ بھی بتائیں کہ کس کے کہنے پر اوجڑی کمیپ کمیشن کی تحقیقات کو آگے نہیں بڑھا گیا۔ کاش، خواجہ آصف کبھی ساہیوال سے سیاست دان رانا نعیم محمود خاں کو اُن کی زندگی میں ملتے تو ان سے بہت سی باتیں معلوم ہوجاتیں، رانا نعیم کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ میں وزیر دفاع تھے تھے جب سانحہ او جڑی کیمپ ہوا۔
بی بی سی کے نمائندے کی حیثیت سے میں نے دس اپریل کے دن کی نسبت سے، جب یہ واقعہ ہوا تھا، اس کے بارے میں انٹرویو کیا جس میں سابق وزیر دفاع رانا نعیم نے بہت کچھ بتایا، جو ریکارڈ کا حصہ ہے۔
ابھی دس دن پہلے دو مئی گزرا، یہ وہ دو مئی ہے جب امریکی جہازوں نے رات کو اندھیرے میں کارروائی کی اور اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد کے علاقے میں ختم کر دیا۔ خواجہ صاحب آپ بھی اُس وقت رکن قومی اسمبلی تھے لیکن آپ کی جماعت اپوزیشن میں تھی، یہ حقیقت ہے، آپ کی جماعت اور آپ نے کبھی اس واقعہ پر رد عمل نہیں آیا۔
وزیر دفاع صاحب، اب کس کو کس کو پھانسی دینی ہے؟ وہ وقت تو بیت گیا اور گڑے مردے اکھاڑنے سے کچھ نہیں ہوگا لیکن تاریخ میں زندہ رہنے کیلئے ضروری ہے کہ حقائق سے پردہ ہٹایا جائے۔ کم از کم جوڈیشل کمیشن کی رپورٹس تو منظر عام پر آنی چاہئیں۔ اگر یہ ممکن نہیں ہے پھر نا قابل عمل مطالبات کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنے اپنے حصے کی کوتاہی پر شرمندگی کا اظہار اور معافی مانگ لی جائے، شائد کچھ ریکارڈ ہی بہتر ہو جائے۔
سیاست دانوں کو یہ عہد کرنا ہوگا کہ وہ کبھی آئین شکن کا ساتھ نہیں دیں گے چاہے انہیں اقتدار ملے یا نہ ملے لیکن ان کا اپنا دامن صاف ہونا چاہیے۔
-
کھیل1 سال ago
ورلڈ کپ میں ٹیم کی بدترین کارکردگی، سری لنکا نے اپنا کرکٹ بورڈ برطرف کردیا
-
کھیل1 سال ago
کم عمر لڑکی کی سیکس ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے پر ریئل میڈرڈ کے 3 کھلاڑی گرفتار
-
تازہ ترین8 مہینے ago
چیئرمین پی سی بی دو طرفہ سیریز پر بات کرنے آئرلینڈ پہنچ گئے
-
پاکستان7 مہینے ago
مریم نواز سے گورنر پنجاب کی ملاقات،صوبے کی ترقی کے لیے اہم امور پر تبادلہ خیال
-
ٹاپ سٹوریز1 سال ago
آئی ایم ایف بورڈ سے معاہدہ منظور،1.2 ارب ڈالر کا فوری اجرا ممکن، باقی رقم دو سہ ماہی جائزوں سے مشروط
-
کالم2 سال ago
اسلام میں عبادت کا تصور
-
تازہ ترین9 مہینے ago
پی سی بی نے انٹرنیشنل ٹیموں کے قیام کے لیے عمارت خرید لی
-
ٹاپ سٹوریز7 مہینے ago
اسحاق ڈار سے امریکی سفیر کی ملاقات، سکیورٹی اور اقتصادی تعاون سمیت دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال