کالم
اسلامی معاشی نظام سے روگردانی کی سزا
دین اسلام، دین فطرت بھی ہے اور مکمل ضابطہ حیات بھی ، دین اسلام نے جہاں انسانیت کو فطرت کے عین مطابق زندگی گزارنے کا طریقہ بتایا وہیں نبی اکرمﷺ اور صحابہ اکرامؓ، نے بہترین نظام حکومت اور بہترین نظام معیشت دیکر کر تمام انسانی مسائل کا حل بھی پیش کیا ، قرآن مجید میں معیشت کے بہترین اصول بتائے گئے ہیں، یہ اسلامی نظام معیشت کے ثمرات ہی تھے کہ خلافت راشدہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور میں پوری سلطنت میں زکوہ لینے والا کوئی نہ ملتا تھا ، سبھی شہری خوشحال تھے، کوئی معاشی ناہمواری نہیں تھی۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی نظام معیشت کے خدوخال کیا ہیں یہ نظام کیسے کام کرتا ہے اور کتنا موثر ہے موجودہ سرمایہ داری نظام اور سوشلزم کیوں ناکام ہیں ، آئیے ان سوالات کے جواب ڈھونڈتے ہیں۔ اسلامی معاشی نظام کا طرہ امتیاز ملک کے شہریوں کی بلا امتیاز خوشحالی اور مساوات ہے۔ اسلامی معاشی نظام کا ڈھانچہ زکوۃ، خمس اور جزیہ پر مشتمل ہے۔ اسلامی معاشی نظام میں بے جا اسراف اور سرمائے کی محض طبقہ امرا کے درمیان گردش پر پابندی کے علاوہ امرا سے مال وصول کر کے غربا کو دئیے جانے کے اصول و ضوابط موجود ہیں ،اسلامی معاشرے میں شہریوں کی کفالت ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ 14 سو سال پہلے دین اسلام کے دئےگئے نظام کی آج مغرب میں ایک جھلک ملتی ہے کہ بے روزگاروں کو روزگار الاونس اور بعض فلاحی ریاستوں میں صحت اور تعلیم کی مفت سہولیات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔
حضرت عمر رضی الله عنه کا تاریخی جملہ آج بھی اسلام معاشی نظام کی یاد دلاتا ہے کہ دجلہ اور فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا مر گیا تو عمر سے سوال ہو گا۔ دین اسلام سود، انشورنس، آڑھت، ذخیرہ اندوزی، فضول خرچی، ایڈوانس بزنس اور دولت کی غلط تقسیم کی نفی کرتا ہے۔ یہ تمام عوامل معاشی نظام پر برے اثرات ڈالتے ہیں ،جس سے بے روزگاری، اجارہ داری، اور معاشی ناہمواریاں پیدا ہوتی ہیں۔ دین اسلام امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر کرنے کے طرزعمل پر روک لگاتا ہے ، چونکہ اسلامی معاشی نظام محنت سے روزی کمانے کی ترغیب دیتا ہے اس لیے سود حرام ہے کیونکہ سود سے سرمایہ دار اپنے سرمائے کے بل بوتے پر بغیر محنت کئے دوسروں کا استحصال کرتا ہے انشورنس سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ سرمایہ داری نظام میں مختلف منصوبوں، فیکٹریوں اور کارخانوں کی انشورنس کرائی جاتی ہے تا کہ سرمایہ محفوظ رہے اس سلسلے میں جو پیسہ دیا جاتا ہے وہ پیدا ہونے والی اشیا کی قیمتوں میں شامل کر دیا جاتا ہے یہ بھی معاشرے کا استحصال ہے۔
اسلامی معاشی نظام نے آڑھت کی بھی نفی کی ہے کیونکہ آڑھتی وہ مال فروخت کر رہا ہوتا ہے جو اس کا نہیں اس کے پاس صرف قیمت ہے جس کا وہ کمیشن لیتا ہے۔ لیکن دین اسلام کہتا ہے کہ آڑھتی پہلے فروخت کرنے والے سے مال لے پھر آگے فروخت کرے پھل آنے سے پہلے باغ کا سودا کرنا بھی سود کے زمرے میں آتا ہے اس سے خریدار کا استحصال ہوتا ہے۔ دین اسلام نے عیاشی کے تمام دروازے بند کر دیے جن میں فضول خرچی بھی شامل ہے۔ اسلامی معاشی نظام میں دولت کی تقسیم کا اتنا خیال رکھا گیا ہے کہ ایک شخص کی دولت کا وارث کوئی ایک نہیں بلکہ اس کی جائیداد اور دولت پر بہت سے لوگوں کو وارث بنایا گیا ہے
تاکہ دولت کی تقسیم محدود نہ ہو بلکہ دولت وسیع پیمانے پر گردش میں رہے۔ انسان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر یا جنسی جذبے بھڑکا کر دولت کمانا بھی دین اسلام میں ناجائز ہے اسلامی نظام معیشت جبری مساوات پیدا نہیں کرتا بلکہ محنت کی ترغیب دیتا ہے کہ خوب محنت کرو کماؤ پھر جو آگے نکل جائے کوئی پیچھے رہ جائے لیکن ایک حد مقرر کرتا ہے کہ کوئی اس سے باہر نہیں جائے گا۔
دین اسلام اجازت دیتا ہے اگر ذریعہ پیداوار کو نجی شعبے میں رکھتے ہوئے عدل کا تقاضا پورا نہیں ہو رہا تو ریاست اسے اپنی تحویل میں لے سکتی ہے جس کی بڑی مثال حضرت عمر رضی الله عنه کے دور خلافت میں جب عراق فتح ہوا تو دجلہ فرات شام اور فلسطین کی سونا اگلتی زمین کی ملکیت غنیمت کے طور پر نہیں دی گئی بلکہ جاگیرداری کی حوصلہ شکنی کے لیے وہ زمینی ریاست کی ملکیت ہی رہی اور جو زمین پر کام کر رہے تھے وہ کاشت کرتے رہے اور پیداوار کا مقررہ حصہ ریاست کو ملتا رہا۔
اسلامی معاشی نظام کی خوبصورتی یہ بھی ہے کہ اس نے مزارعوں کیلئے بھی اصول وضع کر دیے ہیں کہ اگر زمین کسی اور کی ہے اور کاشت کرنے والا سارے اخراجات کر رہا ہے اور ایک طے شدہ رقم زمین کا مالک لے رہا ہے تو یہ بھی غلط ہے ، دولت کی منصفانہ تقسیم کے لیے حکم ہے کہ زمیندار اور مزارعہ دونوں اخراجات نفع اور نقصان میں برابر کے شریک ہوں گے ایسا نہیں ہو سکتا کہ محنت کوئی اور کرے اور دوسرا اپنے سرمائے اور جائیداد کے بل بوتے پر بیٹھ کر کھائے۔ اسلامی معاشی نظام میں محصولات اکٹھے کرنے کا بھی بہترین نظام قائم ہے۔ زکوۃ ایک فطری اور عدل پر مبنی نظام ہے جبکہ دین میں انکم ٹٰیکس کا کوئی تصور نہیں بلکہ جائیداد یا پیداوار پر ڈھائی فیصد سالانہ زکوۃ ہے۔ اگر نہری زمین ہے تو کل پیداوار کا 20 فیصد سالانہ اور بارانی زمین کی سالانہ کل پیداوار کا 5 فیصد خمس لیا جاتا ہے۔ لاوارث کی جائیداد ریاست کی ہوتی ہے۔ مرتد کی دولت جائیداد وقف املاک بھی ریاست کی ہوتی ہے۔
دین اسلام میں فکس ٹیکس کا کوئی تصور نہیں بلکہ سال بعد کل پیداوار یا جائیداد پر ٹیکس ہے۔ دیکھا جائے تو موجودہ سرمایا دارانہ معاشی نظام اپنی موت آپ مر رہا ہے۔ اس نظام کو مصنوعی تنفس کے ذریعے زندہ رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن معاشرے تباہی اور بربادی کی طرف جا رہے ہیں۔ دولت سمٹ کر گنتی کے امرا تک آ چکی ہے اور انہی کے درمیان گردش کر رہی ہے۔ غیر فطری انداز میں چلائی گئی معیشت نے پوری دنیا کا نظام غیر متوازن کر دیا ہے۔ اہل نظر اور اہل علم کہتے ہیں کہ زمین پر رونما ہونے والی بڑی تبدیلیاں جن میں موسمیاتی اور معاشی آفات رونما ہو رہی ہیں صرف اسلامی معاشی نظام سے روگردانی کی سزا ہے۔
-
کھیل1 سال ago
ورلڈ کپ میں ٹیم کی بدترین کارکردگی، سری لنکا نے اپنا کرکٹ بورڈ برطرف کردیا
-
کھیل1 سال ago
کم عمر لڑکی کی سیکس ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے پر ریئل میڈرڈ کے 3 کھلاڑی گرفتار
-
تازہ ترین6 مہینے ago
چیئرمین پی سی بی دو طرفہ سیریز پر بات کرنے آئرلینڈ پہنچ گئے
-
پاکستان6 مہینے ago
مریم نواز سے گورنر پنجاب کی ملاقات،صوبے کی ترقی کے لیے اہم امور پر تبادلہ خیال
-
ٹاپ سٹوریز1 سال ago
آئی ایم ایف بورڈ سے معاہدہ منظور،1.2 ارب ڈالر کا فوری اجرا ممکن، باقی رقم دو سہ ماہی جائزوں سے مشروط
-
کالم1 سال ago
اسلام میں عبادت کا تصور
-
ٹاپ سٹوریز6 مہینے ago
اسحاق ڈار سے امریکی سفیر کی ملاقات، سکیورٹی اور اقتصادی تعاون سمیت دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال
-
تازہ ترین8 مہینے ago
پی سی بی نے انٹرنیشنل ٹیموں کے قیام کے لیے عمارت خرید لی