Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

جمہوری انٹرن شپ

Published

on

بلاو ل بھٹو کو وزیر خارجہ بنے ایک سال ہوگیاہےمختلف حکومتی شخصیات  اور  پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما ٹویٹس کر رہے ہیں، ویڈیوز شئیر کر رہے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری صاحب  نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے ایک سال میں کمال کارکردگی دکھائی ۔

یہ دراصل جمہوری انٹرن شپ ہے، جمہوری انٹرن شپ کا مقصد عمومی طور پر یہ ہے کہ کمپنیاں نئے لوگوں کو موقع دے کر ان پر انویسٹ کرتی ہیں، دونوں فریقوں کو فائدہ ہوتا ہے ، ایک تو نیا ٹیلنٹ  سامنے آتا ہے، اور کمپنی کو طویل مدت کے لیے کارآمد انسانی وسائل دستیاب ہو جاتے ہیں۔

لیکن جو جمہوری انٹرن شپ ہے اس میں  ایسے نفع نقصان کا عمومی طور پر دھیان نہیں دیا جاتا۔ کمپنی ککوآپ کوئی بھی نام دے دیں مثلاً پی ڈ ی ایم اینڈ کو لمیٹڈ۔اس کمپنی میں مختلف لوگوں کو انٹرن شپ کروائی جا رہی ہے۔اس میں آپ کو مختلف چہرے نظر آئیں گے مثال کے طور پر وفاق میں آپ کو مولانا فضل الرحمان کے صاحبزادے بھی نظر آئیں گے جو وہ  وفاقی وزیر ہیں۔اسے بھی جمہوری انٹرن شپ کہاجاتا ہے۔

اسی طرح وزیر اعظم کے صاحبزادے ہیں ان  کے لیے  بھی مختلف لوگوں کے ساتھ بات چیت  کر کے انتظام کیا گیا تھا۔دیکھیں انٹرن شپ  کا ہر طالب علم کو شوق ہوتا ہے  لیکن جن کے والدین کے سماجی طور پر اچھے رابطوں کے حامل ہوں گے وہ اپنے بچوں کو اچھے چیمبر میں لگوا دیں گے،اچھی فیکٹری میں لگوا دیں گے کسی دفتر میں لگوا دیں گے۔

اسی طرح وزیر اعظم نے اپنے صاحبزادے کو بطور انٹرن وزیر اعلیٰ  پنجاب بنوانے کی کوشش کی لیکن اس میں  ایک مسئلہ پیش  آگیا کہ ہے تو یہ جمہوری انٹرن شپ لیکن یہ جمہورسے بہت  الرجک ہے کیونکہ جیسے ہی عوام کی طرف جانے کی بات ہوتی ہے مسئلہ آجاتا ہے اس جمہوری انٹرنشپ کو۔

ہوا وہاں پر ایسا کہ کچھ لوگوں کو نااہل کردیا گیا  اور پھر انٹرنشپ کو جاری رکھنے کیلئے ایک شرط یہ عائد کی گئی کہ جمہور فیصلے کرے گی مثلاٍ جس طرح آپ کہہ سکتے ہیں شئیرہولڈر یہ فیصلہ کریں گے    کہ  نفع نقصان کیا ہے ؟کس کو  یہ انٹرنشپ  کروانا ہے۔ کمپنی کس کو چلانی چاہیے؟۔تو وہ جو شئیر ہولڈرز ہیں یا جمہور ہیں  یا پنجاب کے ووٹرز  ہیں انہوں نے اس ان انٹرن شپ کو مسترد کردیا ۔حمزہ شہباز کی  جمہوری انٹرن شپ  ختم ہوگئی۔لیکن دیگر معزز قائدین کی اپنی اور ان کے بچوں کی انٹرن شپ جاری ہے۔

جمہوریت  میں عوام کو مختلف طرح کا ریلیف دیا جاتا ہےجیسے کہ رات وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب ٹی وی پر آئے اور انہوں نے کہا کہ  سوائے پٹرول کے ڈیزل  سستا کردیا، مٹی کا تیل بھی سستا کردیا ،جمہوریت کے اندر مختلف طریقوں سے  عوام کو ریلیف دیا جاتا ہے۔ مختلف سوسائٹیز میں جہاں جمہوریت ہو یا نہ ہو  پٹرول سستا کر کے یا ڈیزل سستا کر کے کچھ چیزوں کی قیمتیں  کم   کرکے  ریلیف دیا جا سکتا ہے۔ لیکن جمہوریت کے اندر ریلیف صرف یہاں تک محدود نہیں ہوتا حالانکہ اسحاق ڈار صاحب نے پٹرول میں  ریلیف نہیں دیا۔اور پٹرول پر ریلیف نہ ملنے پر آگے کیا ہوگا کہ کوئی احتجاج کرے گا یا نہیں کرے گاآگے جا کر دیکھیں۔

جمہوریت میں صرف قیمتوں میں ریلیف نہیں ملتا۔جس طرح جمہوری انٹرن شپ میں  کوئی نفع نقصان نہیں  دیکھا جاتا۔ حقیقی جمہوریت کے اندرعوام کو ریلیف دیا جاتا ہے تو اس میں ان کی شخصی آزادی  بھی شامل ہے۔عوام کو شخصی ٓزادی کی وجہ سے ہی یہ اطمینان ملتا ہے کہ اس نظام کے حصہ دار ہیں۔

اس وقت اسلام آباد کی  صورتحال  یہ ہے کہ اسلام آباد کی پولیس  کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل سے ٹویٹ کی گئی کہ  مزدوروں کو   سلام ۔ لیکن اس سے  13 گھنٹے پہلے اسی اسلام آباد پولیس نے ٹوئٹ کی کہ اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ ہے۔اسلام آباد کی حدود میں کسی بھی جلسے ،جلوس یا اجتماعات کی اجازت نہیں ۔ اس ٹویٹ کا صاف صاف مطلب تھا کہ   کل یکم مئی ہے، سوچنا بھی  مت کہ   مزدوروں کیلئے باہر نکلو یا مزدوروں کیلئے کوئی ریلی نکالو،ساتھ ساتھ یکم مئی کے موقع پر مزدوروں اور محنت کشوں کو مبارک دے رہے ہیں۔

بات یہ ہے کہ کیا یہ اسلام آباد ہے یا پیانگ کانگ ؟ جمہوریت کے اندر پٹرول کی یا ڈیزل کی قیمت نیچے کر کے ریلیف نہیں دیا جاسکتا۔  جمہوریت کے اندر شہریوں کے حقوق ہوتے ہیں اور وہ ان حقوق کا ٓزادانہ استعمال کرتے ہیں، لیکن جو اس وقت جمہوری انٹرن شپ کمپنی چلوا رہی ہے اس کے اندر  یہ تمام مراعات واپس لے لی گئی ہیں۔

جمہوریت میں سب سے اہم بات ووٹ کا حق ہوتا ہے۔ عوام انتخابات میں ووٹ دیتے ہیں اور اپنی پسند کے نمائندے چنتے ہیں۔اس عمل سے اس کمپنی کو چڑ ہے۔جیسے کچھ  کسی ایک بات ، ایک جملے کو اپنی چھیڑ سمجھ لیتے ہیں،اگر آپ ان کو کہیں کہ ماموں جی کہاں جا رہے ہیں، مونگ پھلی یاکسی اور شے کا نام لیں تو وہ گالیوں پر اتر آتے ہیں۔

اس طرح کی آپ کو ٹک ٹاک پر بہت ساری ویڈیوز ملیں گی کہ جیسے بندہ کسی چیز سے چڑتا ہے  جونہی وہ لفظ آتا ہے  وہ دشنام ترازی شروع کردیتا ہے،ایسا نہیں کرنا چاہیے،اسی قسم کی صورتحال اس وقت جمہوری انٹرن شپ کرانےوالی کمپنی پی ڈی ایم لمیٹڈ کی  ہے، وہ ابھی ایک لفظ سے چڑ جاتے ہیں  اور دشنام ترازی  پر اتر آتے ہیں اور جس لفظ سے وہ چڑتے ہیں وہ ہے الیکشن، انتخابات۔

چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ  الیکشن کراؤ، اس پردشنام ترازی شروع ہوگئی ،گالیاں  پر اترآئے،سرکاری ٹی وی پر آکر گالیاں دینا شروع کردیں ۔جیسے ہی ان کا کوئی معزز رکن گزر رہا ہو کوئی پیچھے سے کہہ دے ، الیکشنز،تو وہ گالیوں کی بوچھاڑ کردے گا۔

جو  مثالیں میں  نے بیان کی ہیں  کیا ان سے کوئی انکار کرسکتا ہے؟ جیسے چیف جسٹس صاحب کو گالیاں دی گئی ہیں ،آپ نے ویڈیو دیکھی ہوگی حکومتی شخصیت  کی ،اس کےعلاوہ ان کے بہت سے لوگ ججز  اور ان کے خاندان کو   برا بھلا کہا جا رہا ہے۔  یہ کیوں یہ دشنام ترازی کی جا رہی ہے ؟کیوںسرکاری ٹی وی پر بیٹھ کر اس طرح کی زبان استعمال کی جا رہی ہے ؟جو محترم قائد ین کر رہے ہیں، حکمران اتحاد کے یا پی ڈی ایم اینڈ کمپنی لمیٹڈ    کے وہ کیوں اس طرح کر رہے ہیں؟ بنیادی طور پر وہی ایک بات یاد آتی ہے جیسے ایک سادہ لوح انسان  کو کسی لفظ سے چڑ ہو اور آپ اس کو وہی لفظ کہہ دیں تو وہ آپ کو گالیاں دیتا ہے۔ یہاں بھی یہی صورتحال ہے۔

اگر آپ انتخابات کا ذکر کریں گے یہ نامناسب ہے، آپ کیوں بار بار ان کے سامنے الیکشن کا نام لیتے ہیں۔ آپ کو پتہ ہے کہ اس طرح سے ان کی دل آزاری ہوتی ہے، وہ چڑ جاتے ہیں ،اور  گالیاں دیتے ہیں تو پھر ہمیں خود سوچنا چاہیے کہ پاکستان کے اندر اس وقت جمہوری انٹرنشپ چل رہی ہے اور ہمیں اس کا دھیان رکھنا ہوگا۔

10 سال سے زائد عرصے پر محیط صحافتی تجربے کے حامل اطہر کاظمی بین الاقوامی میڈیا سمیت پاکستان کے مختلف چینلز میں بھی اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں اور آج کل 'سنو ٹی وی' سے منسلک ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین