ٹاپ سٹوریز
سٹیشنوں پر بے کار کھڑی 1300 بوگیوں، 60 انجنوں کے پرزے، سامان چور لے گئے، کروڑوں کا نقصان
طویل عرصے سے خسارے کا شکار پاکستان ریلوے ایک اور بیل آؤٹ پیکج کی منتظر ہے، سالانہ خسارہ 64 ارب روپے سے زیادہ ہے لیکن خسارے کی سب سے بڑی وجہ نااہلی اور کرپشن ہے جس کا ثبوت ہر بڑے ریلوے سٹیشن پر کھڑی بے کار بوگیاں اور انجن ہیں۔
پاکستان ریلوے کے ذرائع نے بتایا کہ برسوں پہلے ملک کے بڑے سٹیشنز لاہور، کراچی، ملتان ،سکھر ، روہڑی اور دیگر پر 1300 سے زائد بوگیاں اور 60 سے زائد ریلوے انجن بے کار قرار دے کر پارک کئے گئے تھے۔
پاکستان ریلوے کے رولز کے مطابق سکریپ قرار دی گئی بوگیاں، انجن یا کوئی اور سامان کہیں بھی سٹور کئے جانے سے پہلے اس کی مالیت کا تخمینہ لگایا جانا ضروری ہے۔ تخمینہ لگانے کے بعد سامان سٹور کیا جاتا ہے اور جیسے ہے، جہاں ہے کی بنیاد پر فروخت کے لیے اشتہار شائع کرایا جاتا ہے۔
اس کی ذمہ داری جنرل سٹور ڈیپارٹمنٹ پر عائد ہوتی ہے، اس ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری کا یہ عالم ہے کہ 2008 سے سٹیشنز پر کھڑی کی گئی بوگیاں اور انجن نیلام کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی، 2008 میں غلام احمد بلور وزیر ریلوے بنے تھے اور ریلوے ملازمین ان کے دور وزارت کو ریلوے کی تباہی کا آغاز قرار دیتے ہیں۔
پاکستان ریلوے رولز کے مطابق سکریپ کئے گئے سامان کا تخمینہ لگانا لازم ہے، اس حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ سکریپ قرار دی گئی بوگیوں اور انجنوں کی مالیت کا تخمینہ 8 سے 10 ارب روپے تھا،رولز کے مطابق سکریپ قرار دیا گیا سامان تین سے چار ماہ کے اندر نیلام کر کے رقم پاکستان ریلوے کا اکاؤنٹ میں جمع کرانا ہوتی ہے۔
طویل عرصے سے بیکار دی گئی بوگیوں اور دیگر سامان کی نیلامی کا عمل کبھی شروع ہی نہیں کیا جا سکا، یہ بوگیاں اور انجن کھلے آسمان تلے کھڑے کئے گئے اور موسمی حالات کے ساتھ ساتھ ریلوے عملے کی ملی بھگت سے سکریپ چور گروہ کے ہاتھوں اجڑتے رہے۔
اردو کرانیکل نے لاہور ریلوے سٹیشن پر کھڑی کی گئی ایسی بوگیوں کی حالت زار کا موقع پر جا کر جائزہ لیا،یہ زنگ آلود بوگیاں ایک ڈھانچے کے سوا کچھ نہیں تھیں، ان بوگیوں کے شاکس، بریکس، نچلی گراأنڈ، کمانیاں، نٹ بولٹس، ہیلپنگ سپورٹس اور لوہے کا دیگر تمام سامان غائب تھا۔
اس حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ یہ بوگیاں لاوارث نہیں تھیں، ریلوے حکام نے ان بوگیوں کی حفاظت کے لئے بھی عملہ تعینات کیا ہوا ہے، ریلوے پولیس بھی سکیورٹی اور چوری کی روک تھام کی ذمہ دار ہے، ریلوے کے کاغذوں کا پیٹ بھرنے کے لیے اس سامان کی ہر ماہ انتظامی افسران اور ریلوے پولیس مل کر گنتی بھی کرتے ہیں ۔ ایک افسر بھی مقرر ہے جو ہر ماہ اس سامان کا جائزہ لینے کا ذمہ دار ہے۔مجموعی طور پر اس دیکھ بھال اور انتظامات پر 45 سے 20 لاکھ ماہانہ خرچ ہوتا ہے۔
اس تمام تر بندوبست کے باوجود ان بوگیوں کے ڈھانچے باقی رہ گئے ہیں اور تمام پارٹس اور لوہے کا سامان نکال لیا گیا ہے، جو مبینہ طور پر لاہور کی بلال گنج مارکیٹ میں فروخت کیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس چوری کو روکنے کے لیے ریلوے پولیس اور اس سامان کی نگرانی کے لیے تعینات عملہ ذمہ دار ہے اگر یہ سامان اس عملے اور ریلوے پولیس نے نہیں بیچا تو چوروں کی مدد اور سرپرستی ضرور کی ہے۔
اس حوالے ڈائریکٹر جنرل سٹورز ڈیپارٹمنٹ سے رابطے کی کوشش کی گئی تو معلوم ہوا کہ اسلام آباد کسی میٹنگ کے لیے گئے ہیں اورفون پر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
-
کھیل1 سال ago
ورلڈ کپ میں ٹیم کی بدترین کارکردگی، سری لنکا نے اپنا کرکٹ بورڈ برطرف کردیا
-
کھیل1 سال ago
کم عمر لڑکی کی سیکس ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے پر ریئل میڈرڈ کے 3 کھلاڑی گرفتار
-
تازہ ترین8 مہینے ago
چیئرمین پی سی بی دو طرفہ سیریز پر بات کرنے آئرلینڈ پہنچ گئے
-
پاکستان7 مہینے ago
مریم نواز سے گورنر پنجاب کی ملاقات،صوبے کی ترقی کے لیے اہم امور پر تبادلہ خیال
-
ٹاپ سٹوریز1 سال ago
آئی ایم ایف بورڈ سے معاہدہ منظور،1.2 ارب ڈالر کا فوری اجرا ممکن، باقی رقم دو سہ ماہی جائزوں سے مشروط
-
کالم2 سال ago
اسلام میں عبادت کا تصور
-
ٹاپ سٹوریز7 مہینے ago
اسحاق ڈار سے امریکی سفیر کی ملاقات، سکیورٹی اور اقتصادی تعاون سمیت دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال
-
تازہ ترین9 مہینے ago
پی سی بی نے انٹرنیشنل ٹیموں کے قیام کے لیے عمارت خرید لی