Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

دنیا

بھارتی ریاست منی پور میں نہ ختم ہونے والی لڑائی، متحارب قبیلوں نے بنکرز کھود لیے، چوکیاں بنا لیں

Published

on

ہندوستان کی منی پور ریاست کے سرسبز و شاداب دامن میں ایک ہائی وے کا ایک میل کا حصہ فرقہ وارانہ تنازع کی علامت بن گیا ہے جس نے مئی سے لے کر اب تک 180 سے زیادہ افراد کی جان لے لی ہے اور بھارت کے ناقابل شکست تصور ہونے والے وزیراعظم نریندر مودی کی شبیہ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

میتی برادری اور کوکی قبائلیوں کے درمیان تلخ لڑائی ملک کے دور دراز شمال مشرق میں ہے لیکن یہ تقریباً تین ماہ سے جاری ہے، جو مودی کے لیے ایک گہری شرمندگی ہے، مودی ستمبر میں جی 20 رہنماؤں کے اجلاس کی میزبانی اوراگلے سال عام انتخابات میں حصہ لینے کی تیاری کر رہے ہیں۔

دونوں گروپوں کے درمیان ماضی میں کشیدگی رہی ہے، لیکن مئی کے اوائل میں جب ہائیکورٹ نے حکومت کو کوکی قبائلیوں کے لیے مختص اقتصادی فوائد میں میتی قبیلے کو شامل کرنے پر غور کا حکم دیا تو تشدد پھوٹ پڑا۔

سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں نے مسلح تصادم کی شکل اختیار کر لی اور اب، حریف بندوق برداروں نے ہائی وے کے ساتھ ساتھ اور منی پور میں دیگر مقامات پر بنکر کھود لیے ہیں اور چوکیاں بنا لی ہیں، اور ایک دوسرے پر حملہ آور ہتھیاروں، سنائپر رائفلوں اور پستولوں سے باقاعدگی سے فائرنگ کر رہے ہیں۔

رہائشیوں اور میڈیا رپورٹس کے مطابق لڑائی کی وجہ سے لاکھوں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں، دیہاتوں کو آگ لگا دی گئی، خواتین پر جنسی حملے کئے گئے۔ میتی اکثریتی ریاست میں پولیس پر بھی جانبداری کا الزام ہے، فوج کوط امن قائم کرنے کا تو حکم دیا گیا ہے لیکن مسلح افراد کو غیر مسلح کرنے کا کوئی عمل شروع ہوا نہ فوج کو ایسی کوئی ہدایت دی گئی۔

مسئلے کا کوئی فوری حل نظر نہیں آتا

مورخ اور مصنف رام چندر گوہا نے اس صورتحال کو “انتشار اور خانہ جنگی کا مرکب اور ریاستی انتظامیہ کی مکمل شکست” قرار دیا۔

ایک ٹی وی انٹرویو میں رام چندر گوہا نے کہا کہ ایک سنگین قومی بحران کے دوران وزیراعظم مکمل ناکام ہیں، مودی اپنی بنائی دنیا میں جیتے ہیں، وہ کسی بھی بری خبر کے ساتھ جڑنا پسند نہیں کرتے اور امید رکھتے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح اس پر قابو پا لیں گے۔

وزیراعظم کے دفتر اور حکومتی ترجمان نے روئٹرز کے رابطہ کرنے پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔

کوکی جو میتی آبادی کا ایک تہائی ہیں، انہیں آبادی کے تناسب سے سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے، اور متاثرین میں سے دو تہائی کوکی ہیں۔ کوکی قبیلے کے زیادہ تر لوگ دارالحکومت امپھال کو چھوڑ کر پہاڑوں اور ارد گرد کی وادیوں کی جانب بھاگ نکلنے پر مجبور ہوئے۔

سیکورٹی حکام نے بتایا کہ زیادہ تر تشدد اور ہلاکتیں منی پور کے دامن کے قریب بفر زونز میں ہوئی ہیں جہاں دو طرفہ فائرنگ باقاعدگی سے ہوتی ہے۔

قومی شاہراہ کا وہ حصہ جہاں میتی کے زیر تسلط بشنو پور ضلع ، کوکی کے زیر کنٹرول چورا چند پور سے ملتا ہے، ان بفر زونز میں سے ایک ہے جس نے بدترین لڑائی دیکھی ہے۔

مودی کے تبصرے

اس ہفتے رائٹرز کی ایک ٹیم نے شاہراہ سے بالکل دور، کنگوائی کے کوکی گاؤں کا دورہ کیا، تو دونوں طرف سے گولیوں کی آوازیں سنی گئیں۔

 جنگ من لون توتھانگ، 32 سال کا کوکی لڑاکا ہے جس کے پاس ایک شکاری رائفل ہے، میٹی لائنوں کے بالکل سامنے ایک چوکی پر تعینات تھا۔

اس نے کہا کہ وہ اپنے گاؤں کو میتیوں سے بچانے کے لیے وہاں موجود تھے “جو ہم پر حملہ کرنے جا رہے ہیں، جو ہمارے گھروں کو جلانے جا رہے ہیں”۔

اس نے کہا کہ جب وہ حملہ کرتے ہیں تو ہم گولی چلاتے ہیں۔

منی پور میں تشدد پر مودی کا پہلا تبصرہ گزشتہ ہفتے آیا جب  منی پور میں فسادات شروع ہوئے دو ماہ گزر چکے تھے اور  خواتین کو برہنہ گھمانے کی ویڈیو وائرل ہوئی، اس ویڈیو کے ایک دن بعد مودی نے اس واقعہ کو بھارت کے لیے عالمی برادری میں بدنامی کا باعث قرار دیا۔

مودی نے کہا، “قانون اپنی پوری طاقت کے ساتھ اپنے سخت ترین قدم اٹھائے گا۔ منی پور کی بیٹیوں کے ساتھ جو ہوا اسے کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔”

مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) منی پور میں ریاستی حکومت کی بھی سربراہ ہے۔ وفاقی پارلیمنٹ میں، مودی کوان فسادات پر عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا ہے، اقتدار میں نو سال سے زائد عرصے میں دوسری بار انہیں اس امتحان کا سامنا ہے۔

اگرچہ ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے، لیکن امکان ہے کہ مودی کو اس معاملے پر بھرپور توجہ دینا پڑے گی۔

اپوزیشن یہ پوچھے گی کہ وہ منی پور کے وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ کی حمایت کیوں کر رہے ہیں، جو کہ بی جے پی کی ریاستی حکومت کے سربراہ ہیں۔

منی پور، جو میانمار سے متصل ہے، بھارت کی سب سے چھوٹی ریاستوں میں سے ایک ہے جس کی آبادی 3.2 ملین ہے۔ جب کہ کوکی ریاست کی آبادی کا صرف 16% ہیں، میٹئی 53% ہیں۔

روئٹرز کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد 181 ہے، جن میں 113 کوکی اور 62 میٹی شامل ہیں، اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مئی کے شروع میں تشدد کے پہلے ہفتے میں 10 میٹیوں کے مقابلے میں 77 کوکی مارے گئے تھے۔

منی پور میں تعینات ایک وفاقی سکیورٹی اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ دونوں اطراف کے وسائل ایک جیسے نہیں ہیں۔ یہ برابر کی لڑائی نہیں ہے۔

حکومتی اندازوں کے مطابق، ریاستی اسلحہ خانے سے چوری کیے گئے 2,780 ہتھیار، بشمول اسالٹ رائفلیں، سنائپر گنز اور پستول، میتیوں کے پاس ہیں، جب کہ کوکیوں کے پاس 156 ہیں۔

کوکی برادری کی ایک تنظیم کوکی  انپی منی پور کے جنرل سکریٹری، کائے ہاپو گنگٹے، نے تنازعہ کی بنیاد میتیوں کی جانب سے کوکی زمین پر قبضہ اور غلبہ کی خواہش بتائی انہوں نے کہا کہ کوکی اب ہندوستان کے اندر ایک الگ ریاست چاہتے ہیں  جب  تک ہم حاصل نہیں کر لیتے ہم رکیں گے نہیں، ہم صرف میتی سے نہیں لڑ رہے بلکہ ہماری لڑائی حکومت سے ہے۔

پرموت سنگھ، میٹی لیپن کے بانی، ایک ممتاز میٹی تنظیم جس کے اراکین فرنٹ لائنز پر ہیں، نے کہا کہ تمام میٹی نے اس تنازع کی حمایت کی۔

امپھال کے قریب اپنے گھر کے باہر ہولسٹر میں پستول کے ساتھ بیٹھے ہوئے، پرموت سنگھ نے کہا کہ ان کا گروپ کوکیوں سے اس وقت تک لڑے گا جب تک کہ وہ منی پور سے علیحدہ ریاست بنانے کا مطالبہ کرنا بند نہیں کرتے۔ یہ صرف شروعات ہے، میٹی کی طرف سے جنگ جاری رہے گی۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین