Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

اعتزاز احسن کی پیپلز پارٹی میں دوبارہ پذیرائی کیوں؟

Published

on

عمران خان کی حمایت میں بھرپور مہم چلانے والے چوہدری اعتزاز احسن کو پارٹی کے اعلیٰ ترین فورم سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں ویلکم کہہ کر بلاول بھٹو طاقتور حلقوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں ؟ یہ سوال سیاسی حلقوں میں اس وقت گردش کرنے لگا ہے جب بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں اعتزازاحسن پر تنقید کرنے والی آوازوں کو سختی سے دبا دیا۔ پارٹی پالیسی کے خلاف چلنے والے اعتزازاحسن کو نہ صرف خصوصی طور اس اہم اجلاس میں شرکت پر آمادہ کیا گیا بلکہ ان سے انتخابات کے حوالے سے آئینی پوزیشن پر بریفنگ بھی لی گئی۔ پیپلزپارٹی کی سیاست میں اسے ایک اہم موڑ کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے۔

پیپلزپارٹی کے دو سینئیر ترین رہنما اعتزازاحسن اور سابق گورنر پنجاب سردار لطیف خان کھوسہ گذشتہ ایک سال سے بڑے تسلسل کے ساتھ نہ صرف اپنی پارٹی پالیسی کے برعکس سابق وزیراعظم اور سربراہ تحریک انصاف عمران خان کے حق میں کھل کر بول رہے ہیں بلکہ یہ دونوں رہنما اپنی پارٹی کے اتحادی میاں نوازشریف پر شدید تنقید بھی کررہے ہیں۔ وہ نوازشریف اور اسٹبلشمنٹ کو اسی شدت سے آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں جو عمران خان کی سیاست کا خاصہ رہا ہے۔ اس طرح پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے یہ دونوں رکن اپنی پارٹی قیادت کی پالیسی کو کھل کر چیلنج کرتے چلے آرہے ہیں۔ پارٹی قیادت نے انہیں کبھی بالواسطہ اور کبھی براہ راست اپنی سیاست پر نظرثانی کرنے کو کہا لیکن وہ نہ مانے اور آگے ہی بڑھتے گئے۔

اعتزازاحسن تو عمران خان کے ساتھ پچاس سالہ ہمسائیگی کو جواز بناتے رہے۔ لطیف کھوسہ مزید آگے بڑھ کر عمران خان کے وکیل بھی بن چکے ہیں۔ لیکن دونوں میں ایک فرق ہے کہ اعتزازاحسن عمران خان کا دفاع کرتے ہیں، نون لیگ اور اسٹبلشمنٹ پر تنقید کرتے ہیں لیکن اپنے پارٹی چئیرمین کا جھنڈا بھی اونچا رکھتے رہے کہ پوری اتحادی حکومت میں صرف ایک وزیرخارجہ ہی ہے جو اپنے کام میں سب سے اعلٰی ہے۔ جبکہ دوسری طرف جب لطیف کھوسہ پارٹی میں موروثیت اور غیر جمہوری طرز عمل کی بات کرتے ہیں تو اس میں ان کی پارٹی قیادت سے پس پردہ کوئی ناراضی نظر آتی ہے۔ پارٹی نے اپنی تنظیموں میں دوسرے درجے کی قیادت کے ذریعے نہ صرف ان کے خلاف پریس کانفرنسیں کروائیں بلکہ پنجاب آفس میں ایک  "وال آف شیم”  بنا کر اس پر لطیف کھوسہ کی تصویر بھی جڑ دی۔

اب اتحادی حکومت کے خاتمے کے بعد صورتحال بدلتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ پیپلزپارٹی کو محسوس ہورہا ہے اسٹبلشمنٹ اسے نون لیگ کے مقابلے میں لفٹ نہیں کروا رہی۔ ایم کیو ایم متحد ہوگئی یا کردی گئی، جبکہ اندرون سندھ میں کل کی خاتون خانہ سائرہ بانو کو پیپلزپارٹی کے لئے چیلنج بنا کر کھڑا کیا جارہا ہے۔ پنجاب میں بڑے بڑے سیاسی خاندانوں کی پارٹی میں شمولیت بھی لٹک گئی۔ تحریک انصاف کی توڑ پھوڑ کے بعد پیپلزپارٹی قائدین کو امید تھی کہ اس ملبے میں سے کارآمد افراد کو ڈھونڈ کر دوبارہ اپنے ساتھ ملا لیں گے لیکن سیاسی مال غنیمت سمیٹنے کے لئے بھی پنجاب میں استحکام پاکستان پارٹی بن گئی۔ سعید اکبر نوانی، آصف زرداری سے ملاقات کرکے پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ کرچکے تھے لیکن پھر اچانک وہ استحکام پاکستان پارٹی کے بانی رہنما بن کر ابھرے۔ جنوبی پنجاب سے مزید سیاسی شخصیات کی شمولیت کا سلسلہ فی الحال رک گیا ہے۔ اسی طرح پنجاب سے نکئی فیملی اور لاہور سے کرامت کھوکھر فیملی کی شمولیت کی بات ہورہی تھی لیکن نکئی صاحبان بھی استحکام پاکستان پارٹی کو پیارے ہوگئے۔

خیبرپختونخوا میں پرویز خٹک کے پیپلزپارٹی میں آنے کی بات چلی لیکن انہوں نے اپنی الگ پی ٹی آئی کھڑی کرلی۔ اسی طرح بلوچستان سے باپ پارٹی کا  "گفٹ پیک” بھیجنے والوں نے اسے بلاول ہاؤس کے گیٹ سے واپس بلا لیا۔ بلوچستان عوامی پارٹی کو وزارت عظمی کا عہدہ دیکر بلوچستان کے مستقبل کا بھی تعین کردیا گیا اور پیپلزپارٹی منہ دیکھتی رہ گئی۔

نون لیگ بھی حلقہ بندیوں کے بہانے واضح طور پر اپنی الگ پوزیشن لے رہی ہے۔ اب واضح ہورہا ہے کہ اس بار نون لیگ نے طاقتور حلقوں کے ساتھ این آر او کرلیا ہے۔ اور پیپلزپارٹی کو نئے سیٹ اپ میں دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ بلکہ پارٹی میں اب یہ بات زور دے کر کہی جارہی ہے کہ آئندہ الیکشن میں بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنانے کا دعویٰ تو دور کی بات اب سندھ دوبارہ حاصل کرنا بھی کہیں بڑا معرکہ ثابت نہ ہو۔

ان حالات میں ایک بار پھر ملک میں نئی سیاسی صف بندی کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔ اعتزازاحسن کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں پذیرائی بھی یہی اشارہ دیتی ہے۔ آئندہ عام انتخابات کی بات ہوتی ہے تو پیپلزپارٹی پنجاب کی قیادت خاصی کنفیوز نظر آتی ہے۔ انہیں نہیں معلوم کہ وہ کس کے خلاف الیکشن لڑیں گے۔ سندھ میں پندرہ سالہ طویل اقتدار نے پارٹی کو آصف زرداری سٹائل کی ڈرائنگ روم پالیٹکس کا عادی کردیا ہے۔ آج لگتا ہے جیسے پیپلزپارٹی عوامی سیاست بھول گئی ہے۔ پنجاب میں ووٹ بنک عمران خان اور نوازشریف میں تقسیم ہے۔ اسے سیاست کا کھیل کہیں کہ انتہائی بری حکمرانی، ملک کو معاشی بحران میں دھکیلنے کے باوجود تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت بڑھ گئی ہے۔ آئندہ الیکشن میں بدترین مہنگائی کے خلاف عوامی ردعمل کو اگر کوئی ووٹ کی صورت میں کیش کروائے گا تو وہ پی ٹی آئی ہوگی۔ (بشرطیکہ اس پر پابندی نہ لگی)

پیپلزپارٹی ابھی تک فیصلہ نہیں کر پارہی کہ اسے پنجاب میں کس بیانیے کے ساتھ الیکشن میں اترنا ہے۔ الیکشن عمران خان کے خلاف لڑنا ہے یا نوازشریف کے خلاف ؟  اب نون لیگ اور اسٹبلشمنٹ حلقہ بندیوں کی بنیاد پر الیکشن کے معاملے میں کھل کر ایک پیہج پر آگئے ہیں تو پیپلزپارٹی نے اسے بنیاد بنا کر نون لیگ سے دوری اختیار کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ پارٹی جیالا بھی بنیادی طور پر نواز مخالف ہے۔ لگتا ہے کہ وہ پنجاب میں نواز مخالف بیانیہ لے کر سیاست کرنا چاہتی ہے اور اس نئے سیاسی پیکیج میں اسے تحریک انصاف کے حوالے سے بھی پالیسی بدلنا پڑے گی۔ اسی لئے بلاول بھٹو نے اعتزازاحسن کو پذیرائی دی۔ ممکن ہے اگلی سنٹرل ایگزیکٹو میٹنگ میں لطیف کھوسہ کا بھی ڈیسک بجا کر خیرمقدم ہوجائے۔ پھر بات یہیں نہیں رکے گی۔ بلکہ مستقبل میں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف میں قربت بھی خارج از امکان نہیں۔ جس میں نوے روز میں الیکشن کے یک نکاتی ایجنڈے پر دونوں جماعتیں نون لیگ کو سنگل آؤٹ کرنے کی کوشش کریں۔ ہوسکتا ہے اعتزازاحسن اور لطیف کھوسہ جیسے جید وکلاء عمران خان کو جیل سے فوری باہر تو نہ لاسکیں لیکن نون لیگ کے مقابلے میں بلاول اور عمران کو اکٹھا کرنے کا کیس جیت جائیں۔

Continue Reading
7 Comments

7 Comments

  1. Muhammad Abid Rana

    اگست 28, 2023 at 10:06 شام

    ملک کی بدلتی سیاسی صورت حال کے بارے میں بلاشبہ زبردست تجزیاتی تحریر ہے

  2. Syed Saqib Teza

    اگست 28, 2023 at 10:29 شام

    Ballenced write up

  3. Hammad

    اگست 28, 2023 at 10:33 شام

    Very informative and impressive

  4. Aurangzeb Muhammad

    اگست 29, 2023 at 1:29 صبح

    بہت اعلٰی زبردست تحریر۔ خوبصورت انداز بیاں اس تحریر میں ھے۔ جاوید فاروقی صاحب آپ کالم کے ساتھ ساتھ TVتبصرے پر بھی ائے۔ کیونکہ آپ کے الفاظ آسانی سے حالات کو بیان کرتے ھیں۔

  5. شہباز انور خان

    اگست 29, 2023 at 9:03 صبح

    بہت خوب فاروقی صاحب ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال کے تناظر میں آپ کا یہ تجزیاتی کالم اچھا ہے۔جو آپ کی پولیٹیکل میچورٹی کا آئینہ دار ہے۔

  6. Khaled Saleem

    اگست 29, 2023 at 1:20 شام

    ایسے بے ضمیر اور بے پیندے لوٹے سے زیادہ اس پارٹی پر لعنت جس نے اسے دوبارہ لے لیا🖐️

  7. Noor ullah siddiqui

    اگست 31, 2023 at 8:11 صبح

    ماشا اللہ جاوید فاروقی صاحب ایک انتہائی نفیس انسان اور اچھے تجزیہ نگار ہیں ان کی رپورٹنگ مثبت اور معلومات افزا ہوتی ہے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین