Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس: سماعت روکنے کی کوششیں، آئی بی کی اپیل واپس لینے کی درخواست، شیخ رشید کی التوا کی استدعا

Published

on

فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، انٹیلی جنس بیورو ( آئی بی) نے سپریم کورٹ سے نظرثانی درخواست واپس لینے کی اجازت مانگ لی ہے۔

آئی بی کی جانب سے سپریم کورٹ میں متفرق درخواست دائر کی گئی  جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ آئی بی نظرثانی درخواست کا دفاع نہیں کرنا چاہتی۔

عدالتی فیصلے میں انٹیلکی جنس بیورو کے متعلق ریمارکس بھی شامل تھے کہ اس نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا، جس پر انٹیلی جنس بیورو نے نظرثانی کی درخواست دائر کی تھی۔

یاد رہے کہ فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس 28 ستمبر کوسپریم کورٹ میں  سماعت کیلئے مقرر ہے۔۔ ایک اور درخواست گزار شیخ رشید احمد کے وکیل امان اللہ کنرانی نے مقدمہ ملتوی کرنے کی استدعا کردی ہے۔ سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے کے متعلق اپنے فیصلے میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ ضیا کے اعجاز الحق، پیپلز پارٹی کے شیخ حمید اور حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کا علما ونگ کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

فیض آباد دھرنا کیس کیا تھا؟

اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر تحریکِ لبیک پاکستان کی جانب سے دھرنے کا آغاز نومبر 2017 کے اوائل میں ہوا تھا۔

یہ دھرنا انتخابی حلف نامے میں ختم نبوت کے معاملے پر متنازع ترمیم کے خلاف دیا گیا تھا اور تقریباً تین ہفتے تک جاری رہا تھا، اس دھرنے سے دارالحکومت میں نظام زندگی بری طرح متاثر ہوا تھا۔

حکومت نے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور عدالتِ عالیہ کے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد مظاہرین کے خلاف آپریشن بھی کیا تھا، اس آپریشن میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت درجنوں افراد زخمی ہوئے تھے تاہم دھرنا جاری رہا تھا۔

بعدازاں 27 نومبر 2017 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت دھرنے کے شرکا کے مطالبات تسلیم کر لیے تھے اور یہ دھرنا اپنے انجام کو پہنچا تھا۔

فیض آباد دھرنے کے خاتمے کے لیے فوج نے بھی کردار ادا کیا تھا، دھرنا ختم کرنے کے لیے جو معاہدہ کیا گیا تھا اس پر اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی میجر جنرل فیض حمید کے دستخط تھے،دھرنے کے اختتام پر وردی میں ملبوس ایک فوجی افسر کی جانب سے مظاہرین میں رقم تقسیم کرنے کی تصاویر بھی سامنے آئی تھیں۔

فیض آباد دھرنا پر سپریم کورٹ کا فیصلہ

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 22 نومبر کو فیض آباد دھرنے سے متعلق ازخود نوٹس کا فیصلہ محفوظ کیا،6 فروری 2019 کو جاری کیا گیا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی ایسا شخص جو کسی دوسرے کے خلاف فتوی دیتا ہے جس سے کسی کو نقصان پہنچے یا اس کی راہ میں رکاوٹ آئے، اس کے خلاف انسداد دہشت گردی یا سائبر کرائم کے قوانین کے تحت مقدمہ قائم ہونا چاہیے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ کہ احتجاج کرنا ہر ایک کا حق ہے لیکن یہ حق اس وقت تک تسلیم کیا جانا چاہیے جب تک اس سے دوسروں کے حقوق متاثر نہ ہوں۔

عدالت نے آرمی چیف، اور بحری اور فضائی افواج کے سربراہان کو وزارتِ دفاع کے توسط سے حکم دیا ہے کہ وہ فوج کے ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی سیاسی جماعت یا گروہ کی حمایت کی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ پاکستان کا آئین مسلح افواج کے ارکان کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں بشمول کسی سیاسی جماعت، دھڑے یا فرد کی حمایت سے روکتا ہے۔ حکومتِ پاکستان وزارتِ دفاع اور افواج کے متعلقہ سربراہان کے ذریعے ان افراد کے خلاف کارروائی کریں جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی کہا کہا گیا ہے کہ تمام خفیہ اداروں بشمول (آئی ایس آئی، آئی بی اور ایم آئی) اور پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کو اپنے مینڈیٹ سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی وہ اظہار رائے کی آزادی کو سلب کر سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں (چینلز اور اخبارات) کی نشرواشاعت اور ترسیل میں مداخلت کا اختیار ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ نجی ٹی وی چینلز جن میں ڈان اور جیو شامل ہیں اور جو کہ لائسنس یافتہ چینلز ہیں، کی نشریات کو چھاؤنی اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے علاقوں میں بند کر دیا گیا لیکن پیمرا نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔حکومت یا کوئی بھی خفیہ ادارہ اظہار رائے کی آزادی پر قدغن نہیں لگا سکتا۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اصغر خان کیس فیصلے کے بعد مسلح افواج اور آئی ایس آئی کی جانب سے سیاسی مداخلت کا معاملہ رک جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔وردی میں ملبوس اہلکاروں نے فیض آباد دھرنے کے شرکا میں رقوم تقسیم کیں اور یہ کوئی اچھا منظر نہیں۔فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ نے بھی اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے سیاسی معاملات پر رائے زنی کی۔

اس فیصلے میں ڈی جی آئی ایس پی آر کے اس سیاسی بیان کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ تاریخ ثابت کرے گی کہ سنہ 2018 میں ہونے والے عام انتخابات غیر جانبدارانہ تھے۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلح افواج، فوج کے خفیہ اداروں اور فوج کے شعبہ تعلقات عامہ میں کام کرنے والے افسران اور اہلکاروں کو یہ تاثر نہیں دینا چاہیے کہ وہ کسی سیاسی جماعت یا گروہ کی حمایت کر رہی ہیں۔

عدالت نے آئی ایس آئی کی اس رپورٹ کو بھی اپنے فیصلے کا حصہ بنایا ہے جو وزارت دفاع کے حکام نے سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بعض سیاسی شخصیات نے بھی فیض آباد دھرنے کی حمایت کی اور ان شخصیات میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ ضیا کے اعجاز الحق، پیپلز پارٹی کے شیخ حمید اور حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کا علما ونگ بھی شامل ہے۔

اس عدالتی فیصلے میں نجی ٹی وی چینل 92 کا حوالہ بھی دیا گیا اور اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس چینل کے ذمہ داران فیض آباد دھرنے کے شرکا کو کھانا فراہم کرتے تھے۔ فیصلے میں پیمرا کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ اُنھوں نے مذکورہ چینل کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔

عدالت نے قرار دیا کہ ہر شخص کو سیاسی جماعت بنانے کا حق ہے لیکن ہر سیاسی جماعت پر لازم ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کو اپنے ذرائع آمدن کے بارے میں بتائے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو الیکشن کمیشن کا کام ہے کہ ایسی جماعتوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔

فیصلے میں فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے اس بیان کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ فیض آباد پر دھرنا دینے والی جماعت تحریک لبیک کے ذرائع آمدن کا پتہ لگانا اس کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اٹارنی جنرل سے جب ان قوانین اور قواعد و ضوابط کے بارے میں پوچھا جس کے مطابق آئی ایس ائی کام کرتی ہے تو اس بارے میں اٹارنی جنرل کی طرف سے ایک بند لفافہ عدالت میں پیش کیا گیا اور ساتھ یہ بھی استدعا کی گئی کہ آئی ایس آئی کے دائرہ اختیار کو پبلک نہ کیا جائے۔

عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بھی حکم دیا کہ نفرت، شدت پسندی اور نفرت کو ہوا دینے والوں کی نگرانی کریں اور قصور واروں کو قانون کے مطابق سزا دیں۔

عدالت نے خفیہ اداروں سے بھی کہا کہ وہ ایسے ان افراد کی نگرانی کریں جو سکیورٹی ہاتھ میں لے کر لوگوں کو اکساتے ہیں۔

عدالت نے یہ حکم بھی دیا کہ ایسی نشریات اداروں کے خلاف بھی پیمرا کارروائی کرے جو کسی بھی حملے کی ترغیب دینے والاپیغام نشر کرے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین