Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

قطر غزہ میں عارضی جنگ بندی معاہدہ کرانے میں کیسے کامیاب ہوا؟

Published

on

پچھلے ہفتے جب اسرائیل اور حماس کے درمیان عارضی جنگ بندی کا معاہدہ ہوا اور دنیا بھر سے عالمی رہنماؤں نے قطر کو کامیاب ثالثی پر مبارکباد کے پیغامات دیئے لیکن اس وقت قطر اس معاہدے کو یقینی بنانے کے لیے کوششیں دوگنا کر رہا تھا کیونکہ جنگ بندی شروع ہونے سے پہلے ہی معاہدہ ٹوٹنے کے خدشات موجود تھے۔

مذاکرات سے واقف قطری، فلسطینی اور مصری ذرائع کے مطابق عارضی جنگ بندی اور یرغمالیوں، اسیروں کے تبادلے کے معاہدے ڈھیلے ڈھالے لفظوں پر مشتمل تھے، قطر کے مذاکرات کار جانتے تھے کہ اسرائیل اور حماس کو عارضی جنگ بندی کے آغاز اور قیدیوں کے تبادلے کے شیڈول پر اتفاق کرنا باقی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ معاہدے کے تمام نکات کی وضاحت ضروری تھی اور اس بات کو یقینی بنایا جانا تھا کہ ان نکات کا مطلب اسرائیل اور حماس کے لیے یکساں ہو،مثال کے طور پر اسرائیل نے وعدہ کیا تھا کہ وہ غزہ میں زمینی کارروائی کے لیے استعمال کرنے والے ٹینکوں کو ’ پارک‘ کر دے گا، لیکن گراؤنڈ پر عملی طور پر اس کا مطلب کیا ہوگا؟ اس پر کوئی اتفاق رائے نہ تھا۔

قطر کے مرکزی مذاکرات کاروں میں سے ایک عبداللہ السلیطی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ پریشان تھے، ان کا خیال تھا کہ معاہدہ ختم ہونے کو ہے اور چل نہیں پائے گا۔

مذاکرات پر پوری توجہ مرکوز رکھنے کے لیے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی لندن اور ماسکو کے دورے منسوخ کرنے سمیت تمام مصروفیات ترک کر دی تھیں۔

شیخ محمد نے بدھ 22 نومبر کو مذاکرات کا ایک نیا اور طویل دور شروع کیا۔ شیخ محمد کی مرکزی ملاقات میں موساد چیف ڈیوڈ بارنیا بھی تھے، موساد چیف جنگ شروع ہونے کے بعد سے تین بار قطر آ چکے تھے، ان کے علاوہ مصری انٹیلی جنس کے افسروں کا وفد بھی تھا۔ حماس کے لیڈروں سے ملاقات کے لیے الگ کمرے کا استعمال کیا گیا۔

بدھ 22 نومبر کو شروع ہونے والے مذاکرات اگلی صبح تک جاری رہے اور اس سے اگلے دن سے معاہدے پر عمل درآمد پر اتفاق ہوا۔یہ مذاکرات مسلسل 9 گھنٹے جاری رہے،یہ مذاکرات انتہائی مشکل تھے کیونکہ دونوں فریقوں کو ایک دوسرے پر صفر اعتماد تھا۔

صرف پیغام رسانی نہیں

امریکا اور مصر کے سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمومی طور پر ثالثی مذاکرات میں ایک فریق کا پیغام دوسرے فریق تک پہنچانے کا سادہ سا کام ہوتا ہے، لیکن قطر کے مذاکرات کاروں نے پرو ایکٹو اپروچ اپنائی اور مذاکرات میں اپنا وزن ڈالا۔ قطر نے اسرائیل اور حماس کے مطالبات کے موجود انتہائی بڑے فرق کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مذاکرات کے آغازپر اسرائیلی حکومت نے یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی اسیروں کو رہا کرنے سے صاف انکار کیا تھا،حماس نے 2011 میں ایک اسرائیلی فوجی کے بدلے اسرائیلی جیلوں سے ایک ہزار سے زیادہ فلسطینی قیدی چھڑائے تھے، وہ اس بار بھی بڑے مطالبات کر رہی تھی۔

قطر نے اس انتہائی بڑے فرق کو کم کرنے میں کردار ادا کیا اور اسرائیل ایک یرغمالی کے بدلے تین فلسطینی اسیر رہا کرنے پر آمادہ ہو گیا،مذاکرات میں شامل قطری حکام کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات میں بنیادی بات ایک فریق کی جانب سے کئے گئے مطالبے کو دوسرے فریق کے لیے قابل قبول حد تک ترمیم کرانا تھا۔ اس مقصد کے لیے ایک فریق کی تجاویز سننے کے بعد اسے دوسرے فریق تک پہنچانے سے پہلے ان تجاویز پر اسی فریق کے ساتھ مذاکرات کا ایک اور راؤنڈ کیا جاتا رہا۔قطری حکام کا کہنا ہے کہ اگر ہم پوسٹ مین کا کام کرتے تو شاید کوئی معاہدہ ہو ہی نہ پاتا۔

22نومبر کو شروع ہونے والے مذاکرات میں قطر کے ثالث ایک کمرے سے دوسرے کمرے کا چکر لگانے اور فون پر دونوں فریقوں سے رابطوں میں مصروف رہے۔

قطر کے حکام نے ہی کیا کہ جنگ بندی کے دوران اسرائیلیٹینک غزہ کے اندر کس مقام پر پارک رہیں گے۔ الشفا سمیت غزہ کے ہسپتال خالی کرنے کا حماس کا مطالبہ بھی قطر نے طے کیا کہ اسرائیلی فوجی کس طرح اور کب ان ہسپتالوں سے نکلیں گے، جہاں اسرائیلی فوجیوں نے پوزیشنز لے رکھی تھیں۔

مذاکرات میں قطر کے کچھ حکام ایسے بھی تھے جو 2014 سے اسرائیل حماس کے درمیان ثالثی اور مذاکرات کا کام کرتے آئے ہیں،ان حکام نے اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ کوئی اکا دکا اور معمولی واقعہ جنگ بندی معاہدے پر اثرانداز نہ ہو۔ ایسی کسی صورت میں معاہدے کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے دونوں فریقوں سے ایک پروسیجر پر اتفاق رائے لیا گیا۔ حماس کی طر سے کسی گن فائر یا اسرائیل کی جانب سے ٹینک فائر کی صورت میں ایک میکنزم تشکیل دیا گیا اور معاہدے پر عمل درآمد کے آغاز سے پہلے اس میکنزم کو فعال کیا گیا۔

پانچ گھنٹے کے مذاکرات کے بعد قطر کے وزیراعظم نے امریکی صدر سے فون پر بات کی اور معاہدے کی تفصیلات  اور اس پر عمل درآمد کے میکنزم پر تبادلہ خیال کیا، مذاکرات کے طویل سیشن کے بعد قطر کی وزارت خارجہ نے جنگ بندی غزہ کے وقت کے مطابق 24 نومبرصبح 8 بجے شروع ہونے کا اعلان کیا۔

بہترین ثالث

اسرائیل اور حماس دونوں کے ساتھ کھلی کمیونیکیشن کی وجہ دے قطر ہی ایسا ملک تھا جو ثالثی کر سکتا تھا،اس کامیاب ثالثی پر امریکا کے علاوہ روس نے بھی قطری دوستوں کی تعریف کی۔

قطر کو تعریف کے ساتھ ساتھ امریکا اور یورپ میں تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا، جہاں کچھ لوگوں نے کہا کہ قطر اس گروپ کو سپورٹ کر رہا ہے جسے امریکا اور یورپ نے دہشتگرد قرار دے رکھا ہے۔

امیر قطر برن کے دورے پر پہنچے تو یہ تنقید نمایاں تھی اور ایک جرمن اخبار نے شہ سرخی جمائی ’ خونی امیر کا سرکاری دورہ‘۔

قطر کے حکام کا موقف ہے کہ انہوں نے حماس کی میزبانی واشنگٹن کی درخواست پر 2012 میں شروع کی جب فلسطینی جنگجوؤں کا دفتر شام سے ختم کیا گیا۔ قطر فلسطین کو جو بھی مالی امداد دیتا ہے اسرائیل اس کی مکمل چھان بین کرتا ہے۔

کامیاب ثالثی کے پیچھے یقیناً قطر کا حماس کے لیڈروں کے ساتھ ذاتی تعلق اہم فیکٹر ہے، انہوں نے حماس کو یہ احساس دلایا ہوگا کہ انہوں نے اپنی ساکھ داؤ پر لگا کر حماس کو دفتر اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کر رکھی ہے، جب بھی حماس کو ضرورت پڑتی ہے تو قطر کے سوا کوئی دوسرا مدد کو موجود نہیں ہوتا، اس لیے اب یہ احسان چکانے کی باری ہے۔

حماس کے ساتھ قربت کے باوجود قطر کے مذاکرات کار حماس کی غزہ قیادت کے ساتھ براہ راست رابطہ نہیں کرتے بلکہ دوحہ میں موجود دفتر اور نمائندوں سے بات کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے مذاکرات کے دوران مسلسل دو دن کمیونیکیشن ٹوٹ گئی تھی جب اسرائیل نے غزہ کی بجلی اورانٹرنیٹ بند کر دیا تھا۔

قطر کے ساتھ معاملات میں موساد سفارتی کردار ادا کرتا ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے باضابطہ سفارتی روابط موجود نہیں۔ یہ بھی ایک ایسی صورتحال تھی جس کی وجہ سے مذاکرات کے عمل میں سستی آئی۔

اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے حماس کو مکمل بختم کرنے کی قسم کھائی ہے، اس لیے سات روزہ عارضی جنگ بندی کے بعد غزہ میں دوبارہ آگ اور موت برسے گی۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ اس عارضی جنگ بندی میں توسیع ہوگی یا نہیں؟

عارضی جنگ بندی معاہدے کے بعد قطر کے مذاکرات کار عطداللہ السلیطی نے کہا تھا کہ کم ابھی ختم نہیں ہوا،آغاز میں یہ خیال تھا کہ کسی بھی معاہدے تک پہنچنا مشکل ترین کام ہوگا لیکن معاہدہ ہونے کے بعد محسوس ہوا کہ اس معاہدے کو برقرار رکھنا زیادہ مشکل کام ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین