تازہ ترین
تنازع کا باعث بننے والے مبارک احمد کیس میں پنجاب حکومت کی نظرثانی درخواست سماعت کے لیے منظور
سپریم کورٹ نے مبارک احمد کیس میں پنجاب حکومت کی نظر ثانی درخواست سماعت کیلئے منظور کرلی،عدالت نے پنجاب حکومت کو نظرثانی پر 26 فروری کو نوٹس کردیا۔
سپریم کورٹ نے نظرثانی درخواست پر پیر کیلئے نوٹس جاری کردیا۔
اسسٹنٹ پراسیکیوٹر پنجاب نے چیف جسٹس کی عدالت میں موقف پیش کیا کہ مبارک احمد کیس فیصلہ کے پیرا 9 میں آرٹیکل 20 کی مکمل وضاحت نہیں کی گئی، آئین کے آرٹیکل 20 کے تحت مذہبی آزادی لامحدود نہیں ہے،وضاحت نہ ہونے سے فیصلہ کا غلط تاثر دیا گیا۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ جب آرٹیکل 20 کا ذکر آگیا تو وضاحت کی ضرورت نہیں تھی،کہتے یں تو وضاحت کر دیتے ہیں،آرٹیکل 20 کے مطابق مذہبی آزادی پبلک آرڈر اور اخلاقیات سے مشروط ہے،نظرثانی میں وضاحت کیلئے نوٹس کرنا پڑے گا۔
اسسٹنٹ پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ آئین کی تشریح کا نقطہ ہے،نوٹس کی ویسے کوئی ضرورت نہیں۔
جسٹس سعادت عرفان نے کہا کہ نظر ثانی پر نوٹس کرنا پڑے گا۔
عدالت نے پنجاب حکومت کو نظرثانی پر 26 فروری کو نوٹس کردیا۔
مبارک احمد کیس کا فیصلہ سوشل میڈیا پر چیف جسٹس کے خلاف پروپیگنڈا کا باعث بن رہا ہے اور مولانا فضل الرحمان سمیت کئی مذہبی سیاسی رہنما بھی اس پر تنقید کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کے سامنے چھ فروری کو ملزم کی ضمانت اور فردِ جرم سے بعض الزامات حذف کروانے کی درخواست سماعت کے لیے مقرر ہوئی جو لاہور ہائیکورٹ سے ضمانت مسترد ہونے کے بعد 16 اور 27 نومبر 2023 کے فیصلوں کے خلاف دائر کی گئی تھی۔
ملزم پر چھ دسمبر 2022 کو ضلع چنیوٹ میں درج ایف آئی آر کے مطابق صوبہ پنجاب میں قرآن کی طباعت کے قانون 2011، تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 298 سی اور دفعہ 295 بی کے تحت تین الزامات لگائے گئے تھے۔
ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ ملزم ممنوعہ کتاب ’تفسیرِ صغیر‘ تقسیم کر رہا تھا جبکہ ضمانت کی درخواست میں ملزم کے وکیل کا مؤقف تھا کہ ایف آئی آر کے مطابق اس جرم کا ارتکاب 2019 میں کیا گیا جبکہ کسی بھی ممنوعہ کتاب کی تقسیم یا اشاعت کو پنجاب قرآن شریف (ترمیم) قانون کے تحت سنہ 2021 میں جرم قرار دیا گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلے میں کہا تھا کہ چونکہ سنہ 2019 میں ممنوعہ کتاب کی تقسیم جرم نہیں تھی اس لیے درخواست گزار پر یہ فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکتی۔
فیصلے کے مطابق ’آئین نے قرار دیا ہے کہ کسی شخص پر ایسے کام کے لیے فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکتی جو اس وقت جرم نہیں تھا، جب اس کا ارتکاب کیا گیا۔‘
اس حوالے سے فیصلے میں آئین کی دفعہ 12 (1) کا حوالہ دیا گیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں اگر ملزم کو کسی جرم پر سزا ہو سکتی ہے وہ ’تفسیر صغیر‘ نامی کتاب کی اشاعت اور اس کی تقسیم کا جرم ہے جس کی سزا چھ ماہ قید ہے اور ملزم پہلے ہی ایک سال سے زیادہ عرصہ جیل میں گزار چکا ہے۔
ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے ججوں نے ملزم کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے اس نکتے کو نظر انداز کیا۔
-
کھیل1 سال ago
ورلڈ کپ میں ٹیم کی بدترین کارکردگی، سری لنکا نے اپنا کرکٹ بورڈ برطرف کردیا
-
کھیل1 سال ago
کم عمر لڑکی کی سیکس ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے پر ریئل میڈرڈ کے 3 کھلاڑی گرفتار
-
تازہ ترین8 مہینے ago
چیئرمین پی سی بی دو طرفہ سیریز پر بات کرنے آئرلینڈ پہنچ گئے
-
پاکستان7 مہینے ago
مریم نواز سے گورنر پنجاب کی ملاقات،صوبے کی ترقی کے لیے اہم امور پر تبادلہ خیال
-
ٹاپ سٹوریز1 سال ago
آئی ایم ایف بورڈ سے معاہدہ منظور،1.2 ارب ڈالر کا فوری اجرا ممکن، باقی رقم دو سہ ماہی جائزوں سے مشروط
-
کالم2 سال ago
اسلام میں عبادت کا تصور
-
ٹاپ سٹوریز7 مہینے ago
اسحاق ڈار سے امریکی سفیر کی ملاقات، سکیورٹی اور اقتصادی تعاون سمیت دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال
-
تازہ ترین9 مہینے ago
پی سی بی نے انٹرنیشنل ٹیموں کے قیام کے لیے عمارت خرید لی