Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

سیلاب زدہ شہر جہاں ہر لمحے بچوں کے رونے کی آوازیں گونجتی ہیں

Published

on

 سیلاب زدہ شہر درنہ میں لوگ "قیامت کے دن” کی زندگی گزار رہے ہیں۔

مشرقی شہر میں دو ڈیم پھٹنے اور گھروں کے بہہ جانے سے 5,300 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔

بی بی سی کے ٹوڈے پروگرام سے بات کرتے ہوئے جوہر علی نے کہا کہ زندہ بچ جانے والوں نے مکمل تباہی کے مناظر کی اطلاع دی۔پورے پورے خاندان پانی کے طاقتور ریلوں میں بہہ گئے ہیں۔ ایک دوست نے اپنے بھتیجے کو گلی میں مردہ پایا، جسے پانی نے چھت سے نیچے پھینک دیا تھا۔

رپورٹر – جو لیبیا میں صحافیوں پر حملوں کی وجہ سے استنبول میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا ہے – نے کہا کہ اس کے ایک اور دوست نے اس تباہی میں اپنے پورے خاندان کو کھو دیا۔

جوہر علی نے کہا کہ میں اس کے ساتھ ہی تھا، میں نے پورے خاندان کی موت کی خبر سنی۔اس کی ماں، اس کے والد، اس کے دو بھائی، اس کی بہن مریم، اور اس کی بیوی – اس کی نئی نویلی بیوی – جسے اس نے صرف دو ہفتے قبل اپنے خاندان سے ملنے کے لیے لیبیا بھیجا تھا، اور اس کا چھوٹا بچہ جو آٹھ ماہ کا ہے۔

"وہ سب مر گئے، اس کا سارا خاندان مر گیا، اور وہ مجھ سے پوچھ رہا ہے کہ میں کیا کروں۔”

جوہر علی نے کہا کہ ایک زندہ بچ جانے والے نے اسے بتایا کہ ایک عورت سٹریٹ لائٹس سے لٹک رہی ہے، کیونکہ اسے سیلابی ریلا اسے بہا لے گیا اور پانی نے اسے اچھال کر سٹریٹ لائٹس سے لٹکا دیا گیا۔ وہ وہیں لٹکتے ہوئے مر گئی۔

اس ہفتے کی تباہی سے قبل ساحلی شہر کی آبادی 90,000 کے قریب تھی۔ حکام کا کہنا ہے کہ خدشہ ہے کہ لگ بھگ 10,000 لاپتہ ہیں جن میں سے کچھ بحیرہ روم میں طاقتور سیلابی پانی سے بہہ گئے۔

درنہ میں سڑکیں کیچڑ اور ملبے سے ڈھکی ہوئی ہیں اور گاڑیاں اوندھی پڑی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ چھوٹے بچوں کے رونے کی مسلسل آواز نے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

بہت سے لوگ اور امدادی کارکن زندہ بچ جانے والوں کی تلاش میں میں ہیں، بہت سے لوگوں کے منہدم عمارتوں کے نیچے پھنسے ہونے کا خدشہ ہے۔

جوہر علی نے کہا کہ لوگ ملبے تلے دبے بچوں کے رونے کی آوازیں سن رہے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ ان تک کیسے پہنچیں۔ لوگ زمین کے نیچے سے لاشیں نکالنے کے لیے بیلچوں کا استعمال کر رہے ہیں، ہاتھ استعمال کر رہے ہیں۔

صورتحال تباہ کن سے بھی بڑھ کر

لیبیا دو حریف حکومتوں کے درمیان تقسیم ہے-عبوری، بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت طرابلس سے کام کر رہی ہے اور ایک حریف مشرق میں۔

اس تباہی نے مسابقتی طاقتوں کے درمیان تعاون کے نادر مظاہرے کو جنم دیا ہے۔ منگل کو طرابلس سے طبی سامان سے بھرے امدادی طیارے مشرقی شہر بن غازی روانہ کیے گئے۔

جوہرعلی نے دونوں حکومتوں کی مذمت کی، جو ان کے بقول کافی مؤثر ردعمل ظاہر کرنے میں ناکام رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ ملک دو حکومتوں کے درمیان بٹا ہوا ہے، اور افسوس کی بات ہے کہ ان دو کمزور، نااہل حکومتوں کو وہ مدد نہیں ملی جس کی لوگوں کو ضرورت ہے

اقوام متحدہ نے امدادی سرگرمیوں میں مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے، اور ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ اس کی ٹیمیں بھی مدد کے لیے سرگرم ہیں، جوہر علی نے کہا کہ صرف کم سے کم سامان زندہ بچ جانے والوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے۔

انہوں نے کہا صرف ترکی کی طرف سے درنہ شہر میں مدد آئی، اور وہ بھی محدود پیمانے پر۔ بہت سارے لوگ پناہ گاہوں کے بغیر، کھانے کے بغیر، صاف پانی کے بغیر ہیں۔ لوگ خود ایک دوسرے کی مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ہمیں اس وقت جس چیز کی ضرورت ہے وہ بڑے پیمانے پر بین الاقوامی تعاون کی ہے جو فوری طور پر آنا چاہیے اور لوگوں کی مدد کرنا چاہیے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین